• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدرٹرمپ بڑی گہری چالیں چلتے ہیں! جب یوکرائن سے معدنی وسائل نکالنے کا معاہدہ کرنا تھا تو پہلے ماضی میں جنگی امداد کا بل مانگا کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ معاہدہ کرنا آسان نہ ہوگا۔ لہٰذا صدر ذولنسکی کو مذاکرات کے بہانے امریکہ بلا کر اپنی ٹیم اور میڈیا کی موجودگی میں بےعزت کر کے دفتر سے نکال دیا۔ ذولنسکی یورپ کی طرف بھاگے جہاں انہیں جنگ میں مدد کی امید دلائی گئی لیکن یورپ میں سکت ہی نہ تھی کیونکہ وہ خود نیٹو ممالک کی مشترکہ فورس جس میں امریکہ بڑا پارٹنر ہے پر انحصار کرتا ہے۔ نتیجتاً ذولنسکی کو ہار مان کر 50 فیصد معدنی وسائل امریکہ کو دینے کا معاہدہ کرنا پڑا۔ بعینی ٹیرف جنگ سے پہلے ٹرمپ نے دنیا کی معیشتوں کو خوفزدہ کیا بعد ازاں جہاں ذاتی فائدہ یا امریکہ کیلئے رعایت ملی وہاں ڈیل کر لی۔ صدارتی انتخاب میں غزہ میں جنگ بندی کے وعدے پر مسلمانوں کے ووٹ لیے لیکن اسرائیل کو کھلی چھٹی دی کہ وہ مسلمانوں کی بھرپور نسل کشی کرے۔" شیطن یاہو" کے جرم میں ٹرمپ برابر کے شریک نہیں بلکہ مرکزی مجرم ہیں ۔ حالانکہ ان کے ایک حکم سے اسرائیلی جارحیت رُک سکتی ہے اسکے برعکس وہ اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کر کے ، شامی حکومت کا تختہ الٹا کر ،حماس و حزب اللہ کی لبنان میں اسلحہ وسامان حرب کی ترسیل روک کر، ایران کو مذاکرات کے جال میں الجھا کراسرائیل کو اپنا مقصد حاصل کرنے میں سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا کر سیاحوں کیلئے تفریحی مقام بنانے میں بھی انکے گھرانے کا کاروباری مفاد ہے۔ اپنے حالیہ مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں شہنشاہوں کی طرح عرب حکمرانوں نے ان کا فقید المثال استقبال کیا ،انتہائی قیمتی تحائف دئے جن میں ایک محل نما بوئنگ 747 جہاز بھی تھا۔ ٹرمپ نے اربوں ڈالر کا خراج وصول کیا اور امریکی کمپنیوں کے کھربوں ڈالر کے معاہدے کروائے جن سے بھاری کمیشن لینے کی خبریں ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی، خوراک کی ناکہ بندی ، بچوں و عورتوں کےقتلِ عام اور اسرائیل کی بے دریغ بمباری کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولا۔ کسی نے کہا "وہ آیا،اس نے خراج بٹورا اور وہ چل دیا"۔ دورے سے پہلے عرب لیگ اور او آئی سی کے اجلاس میں مسئلہ فلسطین پر جو اتفاق ِرائے ہوا تھا وہ ضائع ہو گیا ۔ اُمتِ محمدی ؐبے یار و مددگار وغمگسار بِنا کسی حقیقی قیادت کے یتیم، یسیر و بے بس ہے۔

22مئی کو ہندوستان کے شہر بیکانیر راجستھان میں "موذی" پاکستان سے شکست فاش کے بعد پہلی دفعہ عوام کے سامنے آیا۔ اس سے پہلے اُدھم پور بیس میں ایس-400 کی بیٹری کے سامنے جوانوں سے خطاب کیا تاکہ ایس-400 تباہ کرنے کا پاکستانی دعوی ٰجھوٹ لگے ۔ اپنی تقریر میں "موذی" کا جارحانہ رویہ تھا، وزن پہلے سے کم ، آنکھوں میں عجب بے بسی اور وحشت تھی جیسے کسی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہو، "موذی" کو اپنی پارلیمان اور حزبِ اختلاف سے حالیہ شکست سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ وہ جنگ میں فتح کا دعویٰ کرتے ہیں تو حزبِ اختلاف سوال کرتی ہے کہ ہمارے کتنے لڑاکا طیارے پاکستان نے گرائے؟ ہمارا کتنا نقصان ہوا؟کیا ہمیں جنگ کرنے کے مقاصد حاصل ہو گئے؟ کیا ہم نے پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر دیا؟ پاکستان کا کتنا نقصان ہوا ؟ بِنا مقاصد حاصل کئے جنگ بندی کی کیا وجہ تھی؟ اُدھر بی جے پی کے پارٹی اجلاس میں "موذی" کو شرکت کی دعوت تک نہ دی گئی۔ بی جے پی چونکہ ہندوتوا نظریات پر قائم ہے لہٰذا ہندتوا پیروکاروں کی موجودگی میں پارٹی کمزور تو ہو سکتی ہے ختم نہیں۔ "موذی "کو ڈرہے کہ پارٹی عوامی دباؤ کم کرنے کیلئے کوئی نیا چہرہ سامنے لا سکتی ہے ۔ ہندوستانی افواج چونکہ ہندوتوا کے زیر ِاثر ہیں اس لیے فوجی قیادت نے "موذی" کے جنگ کے حکم پر محض دبے لفظوں میں احتجاج کیا لیکن اب ہندوستانی فوج میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ عوام اب گودی میڈیا اور ہندوستانی حکومت سے متنفر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں بیکا نیر کا یہ جلسہ رچانا "موذی" کی اپنی ساکھ بحال کرنے کی کاوش ہے۔ پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ، جھوٹ اور افترا کی انتہا، اس سے بدلہ لینے کے نعرے اور دھمکیاں تک دے ڈالیں۔ سندھ طاس معاہدے کی نفی میں چھ دریاؤں کے پانی پر اپنا حق جتاتے ہوئے کہا کہ پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان کو نہیں ملے گا۔ پاکستان کو گھٹنوں کے بل گرانے کا دعویٰ کیا۔ جوہری دھمکیوں کو درخوئے اعتناء نہ سمجھنے کا اعلان کیا، دہشت گردی سپورٹ کرنے والی حکومتوں کا احتساب کرنے کا وعدہ کیا۔ "موذی"

نے واضح کیا کہ پاکستان سے کوئی بات چیت یا تجارت نہیں کی جائے گی بلکہ ہندوستان میں دہشت گردی کی قیمت پاکستانی فوج اور معیشت کو چکانا ہوگی۔ "موذی" نے کہا کہ آپریشن سیندور انصاف کا نیا روپ ہےجو ابھی ختم نہیں ہوا۔ کہا ہم پاکستان کے زیرِ تسلط آزاد کشمیر لینے آ رہے ہیں، پاکستانی فوج اسے خالی کر دے۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی یہی بیان دہرایا ۔

دراصل پاکستان پر حملہ ہندوستان نے امریکی ایماء پر کیا ۔ امریکہ، اسرائیل وہندوستان پاکستان کی جوہری صلاحیت سے خائف ہیں کیونکہ پاکستان جوہری صلاحیت والا واحد اسلامی ملک ہے جو اسلام دشمنوں سے ہضم نہیں ہوتا۔ امریکہ پاکستان کو کمزور کر کے چین کو تنہا کرنا اور سی پیک لپیٹنا چاہتا ہے۔ اسی لیے جیسے ہی پاکستان نے ہندوستان پر کامیاب جوابی حملے کیے، ٹرمپ نے جنگ بندی کروا دی اور خود کو غیر جانبدار دکھانے کے لیے "موذی" اور ہندوستان کی ہرزہ سرائی شروع کر دی۔اُدھر اسرائیل کے خلاف پاکستان نے غزہ کے باسیوں پر بے انتہا ظلم کے باوجود آج تک مصلحت آمیز خاموشی اختیار کیے رکھی تاہم اسرائیل کھل کر پاکستان کے خلاف ہندوستان کی مدد کر رہا ہے۔

غزوۂ اُحد کی غلطیوں سے مسلمانوں کو کئی اہم سبق ملتے ہیں۔ جیسے وقت سے پہلے فتح کا جشن نہیں منانا چاہیے، امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور زمینی حالات کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ زخمی دشمن کی جانب سے جوابی حملے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، اگر ممکن ہو تو دشمن سے اپنی شرائط پر معاملہ کرنا چاہیے، منصوبے پر قیادت کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔پہلے سے طے شدہ مقاصد حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ غزوۂ اُحد کے تناظر میں ہندوستان سے معاملات طے کئے جائیں وگرنہ فتح کی خوشی عارضی ہوگی۔ دشمنوں سے چوکنا رہ کر جنگ کی تیاری کرنا چاہیے۔ لاطینی فراست کے مطابق "اگر تم امن چاہتے ہو تو جنگ کے لیے تیاری کرو"۔ البتہ ڈبل گیم کے ماہر، اپنے مؤقف سے بوقتِ ضرورت یوٹرن لینے والے، ہر اصول کو بالائے طاق رکھنے والے ٹرمپ پر، اربابِ اختیار کو ہرگز اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن کہتا ہےاے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔المائدہ۔5:51

؎کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں

بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات

تازہ ترین