• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوید شیخ، کراچی

ظلمتوں کا شہر ہم کو ناروا ہونے لگا

زحمتوں کا سامنا اب جا بجا ہونے لگا

کیا ہوا خوابِ جوانی، کَب ڈھلا عہدِ شباب

آئینہ بھی حیرتوں میں مبتلا ہونے لگا

آ رہے ہیں بام پر وہ بال کھولے روز روز

دیکھیے کیا کیا رقیبوں کو عطا ہونے لگا

پھر مِلیں گے ایک دِن ہَم تُم، بشرطِ زندگی

ہنس کے وہ کہنے لگے، جب مَیں جُدا ہونے لگا

اِفتگانِ شوق کی فریاد وہ سُنتا نہ تھا

سو فقط آہ و فُغاں پر اِکتفا ہونے لگا

دِل کی جب بے تابیاں حد سے گُزر جانے لگیں

پھر اُسی کا تذکرہ صُبح و مسا ہونے لگا

دل میں رہتی تھی ہمیشہ وصل کی خواہش مگر

کچھ دنوں سے ہجر بھی راحت فزا ہونے لگا

درد نے پہنا ہے آخر حرف کا جامہ نویدؔ

شعر کے لہجے میں عرضِ مدعا ہونے لگا