• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی کہانی، نیا فسانہ: مارٹن کوارٹرز کا مساٹر (پہلی قسط)

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

اخلاق احمد، ممتاز لکھاری، صحافی، مدیر اور اشتہاری صنعت سے منسلک ایک نمایاں نام۔ بظاہر سیدھے سبھاؤ، درحقیقت پرت درپرت عُمدہ کہانیاں تحریر کرنے والے ثقّہ ادیب۔ اپنے زمانے کے سماج کے ذہین اور نکتہ سنج مبصّر ہیں۔ ایک مشّاق سنگ تراش کی مانند خُوب ارتکاز اور سہولت سے کہانیاں تراشتے ہیں اور اُن کے کردار اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ ورق پر اُٹھ کر چلنے پھرنے، باتیں کرنے لگتے ہیں۔ 

حیاتِ انسانی کی لطافتوں اور کثافتوں کو اپنے قصّوں میں سموتے ہوئے، اِک ہجومِ ناشناساں، اِس دورِ نامہرباں میں اِس امر سے بے نیاز کہ ادب کا کوئی شناور متوجّہ ومدح سرا ہے یا نہیں، فقط اظہارِ ذات اور تزکیۂ نفس کی خاطر الفاظ کے پیکر تراش رہے ہیں۔

خاندانوں، محلوں، دوستوں کےحلقوں میں عموماً تدبّروفراست سے مالا مال ایک ایسا دانا شخص ضرور ہوتا ہے، جس سے لوگ مشورہ اور راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن، جب دوسروں کو مشورے دے کر اُن کی زندگیاں سلجھانے والے ایک شخص کی اپنی زندگی بحران سے دوچار ہوتی ہے، تو معاملہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے، اِسی کی صُورت گری اخلاق احمد نے اپنے اِس یاد رہ جانے والے افسانے ’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ میں کی ہے۔ (اخلاق احمد)

ماسٹر کے گھر کے قریب پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی اندر گلی میں لے جانے سے انکار کر دیا۔ ’’پچھلی بار کسی نے سالن پھینک دیا تھا صاحب جی۔‘‘ اُس نےحتی الامکان اَدب کے ساتھ کہا۔’’اور اُس سے پچھلی بارتین چھوکرے…‘‘ ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ منظر نے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور یہ چھوکرے کیا ہوتا ہے؟ ذرا دیکھ بھال کر بولا کرو۔‘‘ ڈرائیور خاموش بیٹھا رہا۔ ٹائی اور کوٹ سے نجات پاکر منظر، کار سے باہر نکل آیا۔

تیز، چُبھتی دھوپ اور کراچی کی مخصوص نم ہوا۔ وہ جب بھی ماسٹر سے ملنے آتا تھا، ڈرائیور کسی نہ کسی بہانے ناگواری کا اظہارکرتا تھا۔ اور منظر ہر بار اپنے غصّے پر قابو پالیتا تھا۔ یہ بات بھی اُسے ماسٹر ہی نے سکھائی تھی۔ ’’غریب آدمی کے غرور پر ناراض مت ہوا کر پیارے‘‘ اُس نےکہا تھا۔ ’’سالا غرور کی بیساکھیوں کے سہارے ہی خوش رہنے کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے۔ صاف سُتھرے کپڑوں پر، جمعےکی نماز پڑھ لینے پر، گھر میں گوشت پکنے پر، بچّے کی سیکنڈ ڈویژن پر، ہر چیز پر اُس کی گردن اَکڑجاتی ہے۔ اِس پربُرا نہیں ماننا چاہیے۔‘‘

گلی کے کونے پر اَب ایک نیا احاطہ نظر آرہا تھا۔ بلاکوں سے بنی دیوار پر پلستر کے بغیر ہی سفیدی کردی گئی تھی۔ ہرکوارٹر والا زیادہ سے زیادہ جگہ گھیر لینے کی فکرمیں تھا۔ قبضے بڑھتے جارہے تھے۔ وہ پیلے رنگ کے سرکاری کوارٹراِن پھیلتے، بڑھتے احاطوں کے اندر کہیں غائب ہوگئے تھے، جہاں اُس نے اپنا سارا لڑکپن گزارا تھا۔ 

وہ بائیں جانب کی پہلی گلی میں مُڑ گیا، کسی اِرادے کے بغیر۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ یہ گلیاں، یہ علاقہ اُسے یوں یاد تھا، جیسے ہتھیلی کی لکیریں۔ چالیس برس گزرنے، اتنی تبدیلیوں کے باوجود وہ اِن کوارٹرز کے درمیان تنگ گلیوں میں، گٹر کے ڈھکن پھلانگتا، کیچڑ سے بچتا، نالیوں کو عبور کرتا، یوں آگے بڑھ سکتا تھا، جیسے یہیں رہتا ہو۔ 

ماسٹر کے کوارٹر کا دروازہ اِسی پردے کے پیچھے چُھپا ہوا تھا، جو گزشتہ بیس برسوں کے دوران دھوپ، بارشوں، میلے ہاتھوں اور گرد کے جھکڑوں کا سامنا کرتے کرتے ایک میلی، بدوضع چادربن چُکا تھا۔ منظر نے پہلے گھنٹی کو دو تین بار دبایا۔ پھر پردہ ہٹا کر دروازہ دھڑدھڑایا۔ لمحہ بھر بعد اندر سے کسی عورت نے کرخت آواز میں پوچھا۔ ’’کون…؟‘‘ ’’قیصرصاحب ہیں؟‘‘ منظر نے بند دروازے کو مخاطب کیا۔ ’’مَیں… منظر ہوں۔‘‘ کرخت آواز نے کہا۔ ’’باتھ روم گیا ہوا ہے۔ ابھی آجاتا ہے۔‘‘ وہ یقیناً ماسٹر کی بیوی تھی۔ 

منظر نے اندازہ لگایا۔ ہر بار وہ ایسی ہی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ ماسٹر کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ شاید وہ عادی ہوگیا ہوگا۔ آدمی پچاس سال کی عُمر میں ہر زیادتی کا عادی ہو جاتا ہے۔ منظر نے کوارٹرز کی قطار پر نگاہ ڈالی۔ ماسٹر کا کوارٹر سب سے خستہ حال نظر آتا تھا۔ 

چالیس سال پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ …مگر چالیس سال پہلےسوچنے کی فرصت ہی کس کے پاس تھی۔ منظر نے میلے پردے کو دیکھا اور دل ہی دل میں ہنسا۔ چالیس سال پہلے تو زندگی کا ذائقہ ہی کچھ اور تھا۔ ماسٹر کی امّاں کے زمانے میں ایسا میلا پردہ کوارٹر کے قریب بھی نہیں آسکتا تھا۔ چپلیں صحن میں اُتارنی پڑتی تھیں اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے پڑتے۔ پلنگوں پر بے داغ سفید چادریں۔ چوڑی چوڑی لال نیلی پٹیوں والی بڑی دَری۔ 

تام چینی کی پلیٹیں اورمٹی کی ہانڈی سے اُٹھتی گرم شوربے کی خوشبو۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کُھلا اور ماسٹر نمودار ہوا۔ وہ پہلے سےزیادہ کم زور لگ رہا تھا اور اس کےدُبلے پتلے سیاہی مائل چہرے پرہڈیاں بھی زیادہ اُبھری ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔مگر چہرے پر مسکراہٹ اورایک پُرجوش توانائی تھی۔

’’ابے اتوار کے روز…؟‘‘ ماسٹر ہنسا۔ ’’اتوار کو تو تجھے ہفتے بھر کی کمائی کا حساب کرنا ہوتا ہے سیٹھ۔‘‘ وہ گلےملا، تو منظر نے اُس کے لاغر جسم کی ہڈیوں کی چُبھن محسوس کی۔ ’’جاہل ماسٹر، سیٹھ لوگ کوئی کام نہیں کرتے۔ ملازم کرتےہیں سارا حساب کتاب۔‘‘ ماسٹر نے قہقہہ مارا۔’’کیا فِٹ بات کہی ہے پیارے۔ خوش رہ۔‘‘

پھروہی گلیوں کا سفر تھا۔ کوارٹرز کے سینے میں اندر اُترتی گلیاں۔ ماسٹر نے برسوں سے… بیس پچیس برسوں سےکبھی اُسے گھر کے اندر آنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ ہربار وہ اِسی طرح چل پڑتے تھے۔ منظر نے کبھی اُس کی بیوی، بچّوں کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ ماسٹرکا ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے۔ بیٹا بجلی کمپنی میں ملازم ہوچُکا تھا اوربیٹی شاید بی اے کرچُکی تھی۔ کبھی کبھی منظر کو یہ سب بہت عجیب لگتا تھا۔ 

چالیس برس پرانے دوست، مگر ایک دوسرے کے گھر والوں کی صُورتوں سے آشنا نہ تھے۔ نیم دائرے میں گھومتی پتلی گلی ختم ہوئی تو صلاح الدین ایوبی ہوٹل آگیا۔ دیوار پرایک بہت بڑے فریم میں صلاح الدین ایوبی کا پوسٹر آویزاں تھا۔ گھوڑا، تلوار اور صلاح الدین ایوبی۔ تصویر کے سارے رنگ اُڑ چُکے تھے اور صلاح الدین ایوبی کی تلوار اَب ایک سُرمئی ڈنڈے جیسی لگتی تھی۔ ساتھ ہی ایک پوسٹر شاہ رُخ خان کا اورایک مادھوری ڈکشٹ کا تھا۔ اور دو چھوٹے چھوٹے فریم۔ 

یہاں ملازمین کو روزانہ اُجرت دی جاتی تھی۔ ہوٹل میں بیٹھ کر سیاسی گفتگو کرنا منع تھی۔ کرسیاں وہی پرانی تھیں۔ اورمیزیں بھی۔ کاؤنٹر کے پیچھے سے ایوب کالا نکل آیا۔ ’’آؤ، آؤ، آج تو شہزادہ آیا ہے۔ بڑے دن بعد شکل دکھائی ہے بھئی…‘‘ ’’بس یار، کام دھندے میں مصروف رہتے ہیں، کیا کریں؟‘‘ ایوب کالا بولا۔ ’’صحیح کہہ رہا ہے تُو، اِس سُسرے شہر میں ہر شخص پھنسا پڑا ہے۔ اورتُوتو پھر بھی سال چھے مہینے میں آجاتا ہے۔ اپن تو نکل ہی نہیں پاتے، اس کتّےکام سے۔‘‘ اچھا یہ بتا، کیا حال ہے؟ سُنا ہے بڑا ٹائٹ قسم کا ہوٹل بنا لیا ہے تُونے؟ بڑا والا لونڈا بتا رہا تھا ایک دن۔ 

دوستوں کےساتھ گیا تھا تیرے ہوٹل۔‘‘ ’’کب…؟‘‘ منظر نےپوچھا۔ ’’دوتین مہینے پہلے بتارہا تھا، ایک سےایک گاڑیوں کی لائنیں لگی رہتی ہیں۔ مَیں نے پوچھا، منظر چچا سے ملا کہ نہیں، تو ٹال گیا۔ بولا، وہ شاید تھے ہی نہیں۔ مَیں نے کہا، اَبے وہ تیری طرح نہیں کہ اپنے ہوٹل پر نہ بیٹھے۔ یوں کہہ کہ تجھے شرم آرہی تھی سلام کرتے۔ خُوب سنائیں سالے کو۔‘‘ماسٹر فوراً بولا۔ ’’زیادہ مت سُنایا کراولاد کو۔ کسی دن جواب مل گیا، تو چُھٹّی ہوجائے گی۔‘‘ ایوب کالا ساکت کھڑا رہ گیا۔ ’’ماسٹر اِن ایکشن۔‘‘ منظر مُسکرایا۔ ’’سالا جملہ نہیں، بھالا مارتا ہے۔‘‘ کاؤنٹر کی طرف جاتے جاتے ایوب دھیمی آواز میں بولا۔ ’’تھوڑی بہت تو سُنانی پڑتی ہیں یار…!‘‘

دُور ایک میز پر کچھ مزدور ٹائپ لوگ کھانا کھارہے تھے۔ اُن کےساتھ والی میز پرتین لڑکے سرجوڑے سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے اورکنکھیوں سے منظر کو دیکھ رہے تھے۔ منظر جانتا تھا، وہ کیاکہہ رہے ہوں گے۔ انہی کوارٹرز سے اُٹھ کر دولت مند بن جانے والا شخص، جو اپنے ماضی کو نہیں بھولا۔ اُس کے ہوٹل، گاڑی اور اُس کی شان وشوکت سے متعلق مبالغہ آمیز انکشافات۔ ’’اَبے!چونتیس کے۔ ایک میں رہتا تھا، دوسری گلی میں۔ 

ابا بتاتے ہیں، پڑھائی میں بہت تیز تھا۔‘‘ اِن کوارٹرزمیں رہنے والے ہیروز کی تلاش میں رہتے تھے۔ مشہور لوگ، مقبول لوگ، جوکئی دن تک گفتگو کا موضوع بن سکیں۔ خُود منظر کو آج تک بہت سے لوگ یاد تھے۔ ٹی وی اَدا کار ظہور احمد، جو اپنے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ گلوکار ایم کلیم، جوذرا آگے رہتا تھا۔ برسوں پہلے ایک شام کرکٹر نذیر جونیئر نے اُن کی پِچ پرباؤلنگ کروائی تھی۔ سُرخ گیند کی ناقابل یقین آف اسپن۔ 

پھر ریڈیو پاکستان کا وہ صداکار، گلوکار صادق الاسلام۔منظرکوسب لوگ یاد تھے۔ اور وہ جوش وخروش بھی، جو اُن لوگوں کا ذکر کرتےسب چہروں پر رقص کرتا تھا۔ ماسٹر نے دو مسکا بند منگوائے۔ اور دودھ پتّی چائے۔ ’’مجھے پتا ہے۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ ’’تیری جان نکل رہی ہوگی، مسکا بند دیکھ کر۔ تجھے اپنا کولیسٹرول یاد آرہا ہوگا، جس کی وجہ سے تُو صُبح، دوپہر، شام گھاس کھاتا رہتا ہے۔ پر جانِ من، یہ نرم، ملائم بند اور یہ نیوٹاؤن مکھن کی تہہ اور یہ گرم چائے… اِسے کھائے بغیر زندہ رہنا، زندگی تو نہیں ہے۔‘‘ منظر ہنسا۔ ’’تیس سال پہلے تُو کلیجی کے بارے میں یہی کہتا تھا۔

وہ جو توے پر بُھون کر…‘‘ ’’ابے ہاں۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔’’وہ بھی طوفان ہوتی تھی یار۔‘‘ ’’اوراُس سے پہلے یعقوب بھائی کے گولے گنڈے کے بارے میں…‘‘ ماسٹر نے قہر آلود نظروں سےاُسے دیکھا۔ ’’تجھے تو بیوی ہوناچاہیے تھا۔ اتنی پرانی پرانی باتیں پوری کمینگی کے ساتھ یاد رکھتا ہے تُو۔ یا پھر تاریخ دان۔‘‘ ’’تاریخ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی ماسٹر۔‘‘ منظر نے کہا۔ ’’تُونے میری زندگی کاپہلا کالا چشمہ توڑ دیا تھا۔ 

ماموں امریکا سے لائے تھے وہ چشمہ۔‘‘ ’’تیرے ماموں خالی ہاتھ آئے تھے امریکا سے۔ بولٹن مارکیٹ سے خریدے تھے سارے تحفے اُنہوں نےاور تاریخ تجھے بھی معاف نہیں کرے گی بیٹا۔ تُونے میرا نام ماسٹر رکھا تھا۔ تُوجلتا تھا، مجھے ہروقت پڑھتا لکھتا دیکھ کر اور آج ساری دنیا مجھے ماسٹر کہتی ہے، ایک اَپر ڈویژن کلرک کو۔ گلی کے لونڈے ماسٹر صاحب کہہ کر سلام کرتے ہیں۔

 اور مجھے اندھا مت سمجھ، مجھے نظر آرہا ہے کہ تُو میرے مسکا بند کا چھوٹا والا پیس کھا رہا ہے۔‘‘ کوئی تازگی کی لہر تھی، جو منظر کو شرابور کرتی جاتی تھی۔ مہینوں کا زنگ اُتارتی جاتی تھی۔ بےکیفی، پژمُردگی اور اُداسی کا زنگ۔ ایک مُرجھایا ہوا پودا اَنگڑائی لے کر کوئی سرسبزچولا پہن رہا تھا۔ 

اُس نے سرجھٹک کر قہقہہ لگایا۔ چھے سات ماہ کے دوران پہلا بھرپور قہقہہ۔ ’’اچھا۔ اَب بات بتا۔‘‘ ماسٹر نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا۔ ’’کیا پریشانی لاحق ہے تجھے؟‘‘ منظر دَم بخود رہ گیا۔ پھر سنبھل کر بولا۔’’ایسی کوئی خاص بات تو نہیں ہے۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ ’’دوطرح کی ہوتی ہیں پریشانیاں۔ ایک تو روزمرّہ کی پریشانی ہوتی ہے، جیسے مَیں پریشان ہوں کہ بجلی کا بِل زیادہ آگیا ہے، اُس کی قسطیں کروانی ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نےسالانہ انکریمنٹ رُکوادی ہے۔

موٹرسائیکل کا پچھلا ٹائر بالکل ختم ہوچُکا ہے یا جیسے تُو پریشان ہوتا ہوگا۔ ایکسائز والا زیادہ رشوت مانگ رہا ہے۔ ڈرائیور پیٹرول کی جعلی رسیدیں لارہاہے۔ بالٹی گوشت بنانے والا کاری گر بھاگ گیا ہے۔ یہ پریشانیاں تو عام پریشانیاں ہیں۔ اِن پر ٹائم ضائع کرنا بےکار ہے۔ پر، تیرا چہرہ بتا رہا ہے، معاملہ کوئی بمباٹ ٹائپ کا ہے۔ مِلا ہاتھ، صحیح کہہ رہا ہوں ناں؟‘‘منظر کو دس برس پرانی بات یاد آئی۔ 

ماسٹر نے اُس وقت بھی اُس کے چہرے سے بھانپ لیا تھا کہ معاملہ سنگین ہے۔ خلع کا مطالبہ واقعی سنگین معاملہ تھا اور بات بہت آگےبڑھ چُکی تھی۔ ماسٹر نے اُسے پسپا ہوجانے کا مشورہ دیا تھا، جس پر منظر بھڑک اُٹھا تھا۔ ماسٹر کی باتوں نے اُس کے دل میں گہری خراشیں ڈال دی تھیں۔ اُس نے کہا تھا، غلطی تیری ہے پیارے، تیرے انجن کی ٹیوننگ ایک دم آئوٹ ہے۔ تُو غریب آدمی ہے، جسے مقدر نے دولت مند بنا دیا۔ اور وہ خاندانی امیرہے، جسے پیسا بےدردی سے خرچ کرنے، آزاد رہنے اور اپنی مرضی چلانے کی عادت ہے۔ 

تُواب کوارٹر میں نہیں رہتا، تجھے اِن پیسے والوں کے رنگ ڈھنگ سیکھنے ہوں گے، کیوں کہ تجھے اب وہیں رہنا ہے۔ برداشت کی عادت ڈال، سمجھا؟ اور آنکھیں بند رکھنے کی بھی، ورنہ منہ کے بل گرے گا اور سب تالیاں بجائیں گے۔ اِس بیوی کو چھوڑدے گا، تو دوسری کیا آسمان سے لائے گا؟ وہ بھی ایسی ہی ہوگی۔ اِنہی بنگلوں سے آئے گی اور بھی بہت کچھ کہا تھا ماسٹرنے۔ کڑوی باتیں۔ زہرمیں بُجھے جملے۔

’’کیا سوچ رہا ہے بے؟‘‘ماسٹر نے پوچھا۔ ’’سوچ رہا ہوں تو کتنا…‘‘ماسٹر ہنسا۔ ’’سب یار ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یار کی نظر صرف نظر نہیں ہوتی پیارے۔ ایکس رے مشین ہوتی ہے۔‘‘ کبھی کبھی منظر کو ماسٹر کی باتوں پرحیرت ہوتی تھی۔ وہ بچپن سےایسا ہی تھا۔ کُھردرا، مگردانش مند۔ 

یہ دانائی اُس نے صرف زندگی سے حاصل نہیں کی تھی، اُن بوسیدہ، سیکنڈ ہینڈ کتابوں سے بھی جمع کی تھی، جو ریگل چوک پر ہر چُھٹی کے دن فروخت ہوتی تھیں۔ مقدر نے اُسے ایک سرکاری محکمے کا یوڈی سی بنادیا تھا اور تنگ دستی نے اُسے سنبھلنے، سُکھ کا سانس لینے کا موقع ہی نہ دیا تھا، مگر ماسٹر نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ 

منظر نے کہا۔ ’’مسئلہ ماہ نور کاہے یار…‘‘ماسٹراچھل پڑا۔ ’’گڑیا کا، اُسے کیا ہوا؟‘‘ ’’کچھ نہیں ہوا اُسے۔‘‘منظر نے کہا۔ ’’بس، ایک ٹینشن کھڑی کررکھی ہے اُس نے۔‘‘ماسٹر بولا۔ ’’بیٹیاں تو ساری عُمر کی ٹینشن ہوتی ہیں پیارے۔ جانتا ہے کیوں؟ کیوں کہ ہم اُن سے محبت کرنا نہیں چھوڑتے۔ وہ شادیاں کرلیتی ہیں، بچّوں کی مائیں بن جاتی ہیں، اُن کےبچّے جوان ہوجاتے ہیں، مگر سالی ٹینشن ختم نہیں ہوتی۔ خیر، تُو بڑا ہوگا تو سب سمجھ جائے گا۔‘‘ (جاری ہے)