گھر سے ہوائی اڈے کیلئے روانہ ہونے سے لے کر چین کے شہر ہاربن کے ہوٹل میں چیک اِن کرنے تک پورے چوبیس گھنٹے لگے، اور جب ہاربن پہنچا تو یہ جان کر بچا کُھچا جوش بھی ٹھنڈا پڑ گیا کہ سفری سامان بیجنگ میں ہی رہ گیا ہے۔اگلی صبح ایک اہم سرکاری ملاقات تھی، میں نے اپنی میزبان سے پوچھا ’’اب کیا ہوئیں گا؟‘‘ اُس نے آبِ گُم کے قبلہ کی طرح جواب دیا ’’دیکھتے جائیں۔‘‘ اِس جواب سے میری تشفی نہ ہوئی، میں نے کہا محترمہ میرا سوٹ اور ٹائی سب کچھ اسی بیگ میں تھا، کہنے لگی آپ اِن کپڑوں میں بھی کافی ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ لگ رہے ہیں، فکر نہ کریں۔ اب اِس کے بعد بندہ کیا بولے۔ لیکن اُس خدا کی بندی نے اگلے پندرہ منٹ میں دو چار فون گھمائے اور پھر مجھے خوش خبری سنائی کہ ’’ائیر چائنا نے یقین دلایا ہے کہ سامان کل صبح بیجنگ سے ہاربن پہنچ جائے گا،فی الحال میں نے آپ کیلئےڈمپلنگ منگوائے ہیں، وہ کھائیں اور سو جائیں‘‘۔ ہوٹل کا کمرہ بیسویں منزل پر تھا، اندر داخل ہوا تو ڈمپلنگ کی ٹرے موجود تھی، اور کمرا کیا وہ تو پورا اپارٹمنٹ تھا، چینی دوستوں نے میزبانی کی حد کر دی تھی۔ پلنگ کے سامنے قد آدم کھڑکی تھی جس سے ہوٹل کے باہر کا نظارہ دکھائی دے رہا تھا، رات کے بارہ بج رہے تھے، ہاربن کی سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں تھیں، سامنے قطار اندر قطار عمارتیں تھیں جن سے روشنی چھن کر باہر آ رہی تھی اور درمیان میں ہاربن کا پُرسکون دریا تھا۔ جیسا شہر ویسا دریا۔ اگلی صبح ’لِلی‘ نے بتایا کہ آپ کا سامان پہنچ گیا ہے مگر ایک مسئلہ ہے۔ میں نے گھبرا کر پوچھا وہ کیا۔ کہنے لگی کچھ نہیں بس آپکے سوٹ کیس میں کریک آ گیا ہے، اُس نے مجھے تصویر دکھائی، واقعی سوٹ کیس اب قابلِ استعمال نہیں رہا تھا۔ میں نے پوچھا ’’اب کیا ہوئیں گا؟‘‘ اطمینان سے بولی ’’دیکھتے جائیں۔‘‘ میں نے بھی دل میں سوچا کہ چلو دیکھتے ہیں اور اپنی میٹنگ میں چلا گیا۔ دوران میٹنگ ہی لِلی کا پیغام آیا کہ ائیر چائنا والے کہہ رہے ہیں کہ سوٹ کیس کی معذرت، آپ نے جرمانہ وصول کرنا ہے یا نیا سوٹ کیس لینا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ نیا سوٹ کیس ہی ٹھیک ہے۔ اگلے روز نیا سوٹ کیس مل گیا۔
ہاربن شہر چین کے جس صوبے میں ہے اُس کی سرحد روس سے ملتی ہے، یہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی تیس ڈگری تک بھی چلا جاتا ہے، اور باقی مہینوں میں خاصا خوشگوار رہتا ہے۔ ہاربن والوں کو ٹھنڈ کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ اگر سردی نہ بھی ہو تو مصنوعی سردی پیدا کر لیتے ہیں۔ یہاں ایک اِن ڈور اسکینگ سنٹر دیکھا جسے مصنوعی برف سے بنایا گیا تھا اور درجہ حرارت بھی منفی آٹھ یا دس ڈگری تھا، سردی کے اِس ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے ہزاروں ٹن کے ائیر کنڈیشنر لگائے گئے تھے۔اسکینگ سنٹر میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے ہمیں بمبر جیکٹیں پہنا دیں لیکن اُن میں بھی سردی لگتی رہی البتہ جو شخص ہمیں بریفنگ دینے پر مامور تھا وہ نہ جانے کیا کھا کر آیا تھا، اُس نے محض ایک ٹی شرٹ کے اوپر باریک سی جیکٹ پہن رکھتی تھی۔ سردیوں کا عاشق تو میں بھی ہوں مگر ہاربن کے شہریوں کا عِشق دیکھ کر تو میں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔
چین جانے سے پہلے مجھے برادرم سردار اظہر سلطان صاحب نے، جنہوں نے چینی امور پر لگ بھگ پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، اپنی چین کی سِم پلاسٹک کی تھیلی میں تعویذ کی طرح لپیٹ کر پیش کی کہ چین جا کر اپنے فون میں ڈال لوں۔ ہاربن پہنچ کر فون میں سِم ڈالی مگر اُس نے کام نہیں کیا، میں نے لِلی سے پوچھا ’’اَب کیا ہوئیں گا؟‘‘ کہنے لگی ’’دیکھتے ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اُس نے فون کرکے بتایا کہ یہ سِم اپنی میعاد مکمل کر چکی ہے، اگر اسے چالو کروانا ہے تو پاسپورٹ لے کر گوانزو جانا پڑے گا جوکہ ممکن نہیں، میں نے کہا نئی سِم کیسے ملے گی، اُس نے کہا ابھی جا کر چائنا موبائل سے لے لیتے ہیں۔ یہ کام تو ہو گیا مگر اِس کیلئے لِلی کو میری ضمانت دینی پڑی، مجھے اپنا پاسپورٹ پیش کرنا پڑا اور انہوں نے میری تصویر بھی اسکین کی۔اگلے روز لِلی ہمیں ٹائیگر پارک لے گئی، دو سال پہلے نیروبی کے جنگل میں جب ’براہ راست‘ دو چار شیر دیکھنے کا موقع ملا تھا تو یوں لگا تھا جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو مگر کیا معلوم تھا کہ ہاربن جیسے شہر میں یار لوگوں نے تین سو شیر قید کر رکھے ہیں۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ہمیں ایک بس میں بٹھا دیا گیا جو چاروں طرف سے بند تھی اور اُس کی کھڑکی میں چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے۔ بس نے دھیرے دھیرے چلنا شروع کیا تو تھوڑی ہی دیر میں ہمارے گرد شیر اکٹھے ہو گئے جو اچھل اچھل کر اُن سوراخوں پر پنجے مار رہے تھے۔ لِلی نے ایک گوشت کی بالٹی لی جس میں بڑی سی قینچی تھی جو گوشت کے پارچے پکڑنے کے کام آتی ہے، اُس نے قینچی کی مدد سے گوشت کا ٹکڑا اٹھایا اور سوراخ میں رکھ دیا، شیر نے اپنا جبڑا کھولا اور جھٹ سے وہ ٹکڑا دانتوں میں دبا لیا۔ لِلی نے گوشت کی بالٹی مجھے دیدی کہ اب میں یہ تجربہ کروں، میں نے بھی یہی حرکت کی، بڑی فرحت محسوس ہوئی۔ شیر تھے کہ ایک کے بعد ایک لپک رہے تھے، اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہمیں کچا چبا جائیں۔ لِلی نے بتایا کہ وہ جو گرانڈیل قسم کا شیر نظر آرہا ہے وہ سب سے زیادہ بدمعاش ہے، اُس کی دہشت اور شخصیت ایسی ہے کہ کئی شیرنیاں اُس پر فریفتہ ہیں۔ اب آپ جو بھی اِس کا مطلب نکال لیں۔
شام کو ہم سینٹرل اسٹریٹ گئے، دنیا کے ہر بڑے شہر میں ایسی ایک سڑک ضرور ہوتی ہے جو ٹریفک کیلئے بند ہوتی ہے اور لوگ وہاں پیدل چہل قدمی کرتے ہیں، کافی پیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، خریداری کرتے ہیں۔ ہاربن کی سینٹرل اسٹریٹ بھی ایسی ہی تھی، گزر گاہ درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، سردیوں میں اِن درختوں پر برف پڑتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے سڑک نے سفید چادر اوڑھ لی ہو۔ آگے چل کر یہ سڑک دریا کے پاس ختم ہو جاتی ہے۔ میں ابھی اِس نظارے سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ مجھے لِلی کی آواز آئی:’’ آپ کی کل صبح شنگھائی روانگی ہے ناں؟‘‘ میں نے چونک کر کہا ’’ہاں، کیا ہوا؟‘‘ لِلی بولی ’’مجھے ابھی ہوائی اڈے سے فون آیا ہے کہ آپ کے ٹکٹ پہ پاسپورٹ نمبر غلط درج ہے، جب تک یہ درست نہیں ہو گا آپ جہاز پر سوار نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ میرے چھکے چھوٹ گئے۔ ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے لِلی سے پوچھا۔ اُس نے گہری سانس لی اور جواب دیا: ’’دیکھ لیں گے۔‘‘ (جاری ہے)