• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہم رب کی رضا سے زیادہ لوگوں کی داد و تحسین کے خواہاں ہیں
آج ہم رب کی رضا سے زیادہ لوگوں کی داد و تحسین کے خواہاں ہیں

تحریم فاطمہ

چاندنی رات کی روشنی میں، بکرا منڈی کی گرد سے اَٹے، تھکے ہارے لوگ جب اپنے جانوروں کے ساتھ گھروں کو لوٹے، تو ایک عجیب ہی منظر دکھائی دیا۔ کہیں بچّوں کی خوشی، کہیں بڑوں کا تفاخر اور کہیں کیمروں کی چمک دمک میں لپٹا فریضۂ قربانی۔ عیدِ قرباں آتی ہے، تو سنتِ ابراہیمیؑ کی خوش بُو ہر طرف پھیل جاتی ہے، مگر اب اس خوش بُو میں بہت حد تک ریاکاری، دکھاوے اور فخر کی مصنوعی مہک بھی شامل ہوچُکی ہے۔

ایسا لگتا ہے، ہم قربانی کا اصل مفہوم یک سر فراموش ہی کر چُکے ہیں۔ وہ بےلوث قربانی، خالص جذبہ، جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ نے کیا، مفقود ہوتا جاتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پیارے بیٹے، حضرت اسمعیلؑ کو رب کی رضا کی خاطر قربانی کے لیے پیش کردیا۔ 

اُن کا یہ عمل خالصتاً اطاعتِ خداوندی پرمبنی، کامل خلوص سے لب ریز تھا، جس میں نمائش ونمود کی رمق تک نہ تھی۔ مگر آج…؟؟ آج قربانی جانور کی نہیں، نیّت کی ہوچُکی ہے کہ جانور گھر آتا ہے، تو نیّت رب کی رضا سے پہلے لوگوں کی داد کی ہوتی ہے۔

ہر گلی محلے، ہر سوشل میڈیا پوسٹ پر ’’دیکھو، ہمارا جانور کیسا ہے!‘‘ ہی کی صدائیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔ جانور کی قیمت زبان سے نہ بھی بتائی جائے، خرید لانے والے کا انداز چیخ چیخ کر اُس کے احساسِ تفاخرکی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے، سُنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی نہیں ہورہی، دُولھا گھر آگیا ہے۔ جانور کے گلے میں جھالر، ٹانگوں پر منہدی، پیٹھ پر آرائشی لوازمات، مگر نیّت میں خلوص نہیں۔ 

بس، ایک عجیب سی دوڑ لگی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سب سے پہلے کون اپنے جانور کی تصویر پوسٹ کرے گا، سب سے زیادہ لائکس کس کی پوسٹ لے گی اور محلے میں سب سے منہگا جانور کس کے آنگن بندھا ہے؟ ذرا سوچیے، کیا ایسے ہوتی ہے قربانی؟

اس سوال نے ہمارے دماغ میں اُس وقت جنم لیا کہ جب ہم نے ایک بچّے کو اپنے باپ سے یہ کہتے سنا۔ ’’ابّو! اتنا چھوٹا بکرا؟ دوست تو کہہ رہے تھے کہ تم تو بہت بڑا بیل لاؤ گے۔‘‘ باپ خاموش رہا، شاید اُس کی جیب نے اسے بولنے کی اجازت نہیں دی، لیکن بیٹا اپنے دوستوں کے سامنے شرمندگی محسوس کررہا تھا۔ 

دراصل، یہ شرمندگی اِس وجہ سے ہے کہ ہم نے ایک فریضے، ایک عبادت کو، ایک مقابلہ بنا دیا ہے۔ قربانی کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ گوشت اُس کے حصّے میں جائے، جو سال پھر اس ذائقے سے محروم رہتا ہے، مگر آج سارا گوشت فریزرز کی نذر ہوجاتا ہے، غربا و مستحقین تو حسرت و یاس ہی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ 

قرآنِ پاک کی سورۂ حج میں ارشاد ہے۔ ’’اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ اور پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘ تو اگر کسی نے لاکھوں روپے کا بھی قربانی کا جانور خریدا ہے، مگر نیّت میں اِخلاص نہیں، تو وہ صرف نمائش و دکھاوا ہے، عبادت نہیں۔ اِسی طرح اگر اس جانور کے گوشت میں غریبوں، ضرورت مندوں کاحصّہ نہیں، تویہ باعثِ ثواب نہیں، صرف ذخیرہ ہے۔ یاد رہے کہ عبادت وہی مقبول ہے کہ جو خاموش، خالص اور پوشیدہ ہو۔

آئیے، اس عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ہم خُود اپنا محاسبہ کریں کہ ’’ہم یہ قربانی کس کے لیے کر رہے ہیں؟ اللہ کے لیے یا لوگوں سے داد وصول کرنے کے لیے؟‘‘ تو کیوں نہ اس بارہم اپنا فریزر بھرنےکی بجائے کسی غریب کا دستر خوان سجائیں۔ کیوں نہ قربانی سے پہلے اپنی ریاکاری کو ذبح کریں؟ کیوں نہ اپنے بچّوں کو یہ سکھائیں کہ قربانی کا اجر جانور کی قیمت میں نہیں، خلوصِ نیّت میں پوشیدہ ہے۔

کیوں نہ عیدِ قرباں کو خالص عبادت کا ذریعہ بنائیں، مقابلے کا میدان نہیں۔ یاد رہے، اگر قربانی ثواب کی نیّت سے کی جائے، تویہ جنّت کا دروازہ کھولتی ہے اور اگر احساسِ تفاخر کے لیے ہو، تو دِلوں کو بھی بند کردیتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اخلاص کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔