عیدالاضحی مسلمانوں کا ایسا تہوار ہے جو ایک جانب انہیں راہِ خدا میں اپنی عزیز ترین شئے قربان اور ایثار کرنے کا درس دیتا ہے تو دوسری جانب اس موقعے پر زبردست معاشی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لوگ قربانی کے جانور خریدتے ہیں جنہیں پہلے بیوپاری ایک سے دوسرے مقام پر لاتے اور لے جاتے ہیں، پھر یہ ہی عمل جانور خریدنے والے کرتے ہیں۔ پھر جانوروں کے لیے چارہ اور ان کی آرایش کے لیے مختلف اشیاء خریدی جاتی ہیں۔
قربانی کے لیے چھریاں، چاقو اور بغدے خریدے جاتے ہیں۔ گوشت بنانے کے لیے مُڈّیاں درکار ہوتی ہیں۔ قصاب کا انتظام کیا جاتا ہے۔ گوشت کی منتقلی اور تقسیم کے لیے مختلف ذرایع نقل و حمل استعمال کیے جاتے ہیں۔ جانور کی باقیات مثلا،ہڈی ،کھال، چربی، اوجھڑی وغیرہ سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ان تمام مراحل میں پیسہ ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا ہے اور ارتکازِ دولت کے فلسفے پر چوٹ پڑتی ہے۔اس پورے عمل کے دوران زبردست معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور بہت سے افراد کو روزگار ملتا ہے۔
لیکن روز افزوں منہگائی نےسُنّتِ ابراہیمی کی پیروی کرنے والوں کے لیے قربانی و ایثار کو دشوار بنا دیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس قربانی کے جانورچالیس فی صد منہگے ہیں۔ اس صورت حال میں بہت سے افراد نے کم درجے کے جانور خریدے ہیں اور بہت سوں نے اجتماعی قربانی میں حصّہ لینے کا فیصلہ کیاہے۔ ویسے بھی مختلف وجوہ کی بنا پر کئی برس سے کراچی میں اجتماعی قربانی کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس عیدپر تقریباً دو لاکھ شہری مختلف مقامات پر اجتماعی قربانی میں حصہ لیں گے۔ ان میں سے بڑی تعدادنے شہر میں مصروفِ عمل مختلف فلاحی اداروں کے زیرِ انتظام کی جانے والی اجتماعی قربانی میں حصّہ لیا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چوں کہ یہ ادارے بڑی تعداد میں جانور خریدتے ہیں اور کافی پہلے سودے کرلیتے ہیں اس لیے انہیں نسبتا کم نرخ پر جانور مل جاتے ہیں ،لہذا وہ فی حصّہ رقم کم رکھتے ہیں مثلا اس برس ان اداروں کی جانب سے اوسطافی حصّہ بیس ہزار روپے وصول کیے گئے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اس طرح قربانی کرنے والے ہر طرح کے جھنجھٹ سے بچ جاتے ہیں اور وقتِ مقررہ پر جاکر اپنے حصّے کا گوشت گھر لے آتے ہیں۔ جانور کی خریداری، اسے باندھنے کے لیے جگہ کی دست یابی،اس کے کھانے پینے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے، قصائی تلاش کرنے، گوشت کی بوٹیاں بننے تک مصروف رہنے وغیرہ، جیسے امور سے اُن کی جان بچ جاتی ہے۔
منہگائی کی بازگشت
لیکن اجتماعی قربانی منہگائی کو کم نہیں کرسکتی۔ لہذا مویشی منڈیوں میں بھی اس کی بازگشت جا بہ جا سنائی دیتی ہے۔ عیدالاضحی سے قبل آنے والے آخری اتوار کو بیوپاریوں کو اُمّید تھی کہ چند روز باقی رہ جانے کی وجہ سے اتوار کو بڑی تعداد میں خریدار منڈیوں کا رُخ کریں گے، لیکن اس روز بھی مویشی منڈیوں میں سودوں میں روایتی تیزی نہیں آسکی تھی۔ ملک بھر کے مختلف شہروں میں خریدار اور بیوپاری، دونوں، منہگائی سے پریشان ہیں لیکن اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کئی بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مناسب دام نہ ملے تو جانور واپس لے جائیں گے۔دوسری جانب خریداروں کا کہناتھا کہ عیدالاضحیٰ کے مزید قریب آنے پر جانوروں کے دام کم ہونے کا امکان ہے۔ ادہر جانوروں کو دی جانے والی گھاس اورچارے کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ جوں جوں عیدالاضحیٰ قریب آتی جارہی ہے مویشی منڈیوں میں خریداروں کی تعداد بڑھ رہی ہےاور لوگ مناسب دام میں جانور ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں۔ لیکن منہگائی کے ستائے ہوئے عوام کا کہنا ہے کہ جتنی گنجایش ہے، اس میں اس بار جانور ملنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
اچھی گائے یا بکرا خریدنا مشکل ہوگیا ہے۔تو بیوپاریوں کا کہنا ہے منہگائی کے اثرات جانوروں کے نرخ پربھی پڑے ہیں۔ مویشیوں کے چارے کی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ دُور دراز سے جانور لانے پربہت زیادہ کرایہ دینا پڑا ہے۔ منڈی میں اشیائے خور ونوش بھی بہت زیادہ منہگی ہیں ۔ جانوروں کی دیکھ بھال پر مامور افراد کی یومیہ اُجرت بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ چکی ہے۔
مویشیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، جگہ کی کمی اور امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر لوگوں کی بڑی تعداد فلاحی اداروں، مدرسوں، مساجد وغیرہ میں ہونے والی اجتماعی قربانی میں حصہ لیے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ متوسط طبقے کے بہت سے گھرانوں کے لیے اجتماعی قربانی کافی حد تک محفوظ اور نسبتاسستا نسخہ ہے۔
پنجاب اور سندھ میں سیلاب کے باوجود سپرہائی وے اور دیگر منڈیوں میں جانوروں کی کمی نظر نہیں آرہی ہے، بلکہ وہاں مویشیوں کی کافی تعداد موجود ہے، لیکن ان کی قیمتیں عام خاندانوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ منہگائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے 2014میں گائے اور بیل کی اجتماعی قربانی کے لیے مذکورہ اداروں کی جانب سے فی حصّہ وصول کی جانے والی اوسط رقم آٹھ ہزار روپے تھی اور بکرے کی قربانی کے لیے سترہ ہزارروپے لیے جاتے تھے۔ اب یہ رقم اوسطا بالترتیب بیس اور پینتیس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کہیں کہیں فی حصّہ سولہ ہزار روپے بھی وصول کیے جارہے ہیں اور حصّے دار کوکم و بیش دس کلوگرام گوشت فراہم کیے جانے کاعندیہ دیا گیا ہے۔اگر فی سبیل اللہ قربانی کی جائے تو اس کے ایک حصّےکے لیے کم سے کم چودہ ہزار روپے مقرّر کیے گئے ہیں۔
بعض فلاحی اداروں کے ذمّے داران کے مطابق گزشتہ برس اگر بکرے کی قیمت پچّیس ہزار روپے تھی تو اس سال وہ 35 تا 40 ہزار روپے رکھی گئی ہے اورگائے کا حصہ 10 ہزار روپے سے بڑھ کر 18 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔منہگائی اور اجتماعی قربانی کےضمن میں سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے ایڈمنسٹریٹر محمد ریحان کہتے ہیں کہ کراچی سے طورخم بارڈر تک ہم قربانی کا گوشت بانٹتے ہیں۔
جانور ہم ایک ماہ قبل خرید لیتے ہیں کیوں کہ یہ اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور ہم ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اجتماعی قربانی کا اہم مقصد یہ ہے کہ گوشت اس غریب کے گھر پہنچ جائے جو پورا سال گوشت سے محروم رہتا ہے۔ اجتماعی قربانی کے تحت اس سال کم و بیش بارہ ہزار جانوروں کی قربانی کی جائے گی۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بار جانوربہت سے لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہوچکے ہیں۔
منہگا چارہ
جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں کے مطابق جانوروں کے ہوش ربا نرخ کی ایک بہت بڑی وجہ چارے کے بہت زیادہ نرخ بھی ہیں۔ اس سےدکان داروں کی تو چاندی ہوگئی ہے، لیکن عید قرباں سے قبل مویشی پالنےاور رکھنے والوں کی پریشانی میں بہت اضافہ ہوگیاہے۔ ان کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی منہگائی کے باعث جہاں پیٹرولیم کی مصنوعات سمیت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے وہیں جانوروں کے چارے کی قیمت میں بھی پچاس سے سو روپے فی کلو اضافہ کرکے اسے فروخت کیا جارہا ہے۔
عید قرباں کے موقعے پر شہری کثیر تعداد میں جانور خریدتے ہیں اور انہیں کھانے کے لیے مختلف اقسام کا چارہ دیتے ہیں، لیکن چارہ منہگا ہونے کی وجہ سے مویشی پالنے والے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ چارے کی قیمت میں اضافہ دیکھ کربعض شہریوں نے جانوروں کوسستی سبزیاں اورپھل کھلانا شروع کردیا ہے تاکہ جانوروں کی مناسب دیکھ بھال ہوسکے۔ دوسری جانب مویشیوں کاچارہ فروخت کرنے والے دکان داروں کی جانب سے چارے کے نرخ بڑھا دینے کی وجہ سے ان کی چاندی ہوگئی ہے۔ لیکن انتظامیہ نے تمام صورت حال پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
اس کاروبار سے وابستہ افراد کے بہ قول یہ کاروبار وہ ہی شخص کرسکتا ہے جسے اس کام کا پہلے سے تجربہ ہو۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چارے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان کے معیارات اور نرخ بھی ہوتے ہیں۔ ہرا چارہ ہر علاقے میں علیحدہ معیار کا ہوتا ہے۔ بھوسے کا بھی یہ ہی عالم ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں میں ان کی خریدو فروخت کے لیے منڈیاں قائم ہیں جہاں بڑے بڑے بیوپاریوں اور آڑھتیوں سے چھوٹے بیوپاری اور آڑھتی اپنے نمائندوں کے ذریعے خرید و فروخت کرتے ہیں اور خریداگیا چارہ ٹرکوں میں بھر کر مختلف علاقوں، مویشی منڈیوں اور باڑوں کو بھیجا جاتا ہے۔ یعنی یہ کام کرنے کے لیے پورا جال درکار ہوتا ہے۔ اس جال میں بیوپاری ، آڑھتی اور ٹرانسپورٹرز شامل ہوتے ہیں۔
مذکورہ افراد کے بہ قول عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی چارے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ پرانے بیوپاری اس صورت حال سے بچنے کے لیے پہلے سے بڑے بیوپاریوں سے رابطہ کرتے ہیں اور بعض معاہدے بھی کرلیتے ہیں جس کے لیے بیعانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی منڈیوں میں چارے وغیرہ کی کمی کی شکایات سامنے آنے لگتی ہیں۔ ان کی نقل و حمل کے لیے ٹرانسپورٹرز نسبتاً زیادہ کرایہ مانگنے لگتے ہیں اور چارہ کاٹنے والے بھی ان ایّام میں مزدوری کا معاوضہ زیادہ طلب کرنے لگتے ہیں۔
آن لائن قربانی اور ایف آئی اے کا انتباہ
ایک جانب قربانی کا مذہبی فریضہ ہے اور دوسری جانب جعل ساز ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نےعوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہو شیار ہوجائیں اور آن لائن قربانی کے جھانسے میں نہ آئیں ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت کے ضمن میں عوام کو متنبہ کیا ہے کہ کچھ نوسر باز عام شہریوں کو سبز باغ دکھا کر لوٹنے میں مصروف ہیں۔ شہری شدید گرمی میں دوڑ بھاگ سے بچنے کے لیے آن لائن قربانی کے جانور خریدنے کی کوشش میں جعل سازی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ترجمان ایف آئی اےکے مطابق کچھ جعل ساز سوشل میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی پرکشش قیمت دکھاکرجانور کی تصاویر وٹس ایپ کرتے ہیں اور شہریوں سے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کرتے ہیں،جس کے بعد شہری ان کے جھانسے میں آکر رقم بھیج دیتے ہیں اور پھر اپنی دن رات کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ترجمان ایف آئی اے نے عوام سے اپیل کی ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر جانوروں کی خریداری سے اجتناب کریں، اس خطرناک مہم سے خود کو محفوظ رکھیں اور جانوروں کی آن لائن فروخت کے اشتہارات سے متعلق فوری طور پر ہمیں ادارے کو آگااہ کریں۔
گردشِ زر کا بہت بڑا ذریعہ
دوبرس قبل کے ایک جائزے کے مطابق اُس وقت چار سو ارب روپے کے جانوروں کی قربانی ہوئی تھی جس سے ملک کی معیشت کو کافی سہاراملا تھا، اس برس یہ حجم کہیں زیادہ ہوگا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خریدو فروخت معاشی بحالی کےلیے بہت ضروری ہے کیوں کہ قربانی سے جڑی معیشت کا حجم محتاط اندازے کے مطابق اس سال حجم 600 ارب روپے سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ 2008 میں یہ حجم تقریبا اسّی سے نوّے ارب روپے تھا جو 2016 میں تقریبا ایک سو پچاس ارب روپے سے زیادہ ہوگیا تھا اور بعد کے برسوں میں یہ ایک اندازے کے مطابق دو سو ساٹھ ارب روپے کے قریب تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ذبح کیے جانے والے جانوروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر 2008 میں تقریبا پچپن لاکھ جانور ذبح کیے گئے تھے، لیکن 2021میں یہ تعداد ایک کروڑ سے زایدتک جاپہنچی تھی۔
کراچی میں سب سے زیادہ جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔2019 میں منی پاکستان میں تقریبا سولہ لاکھ جانور ذبح کیے گئے تھے لیکن 2020 میں کووڈ کی وبا کی وجہ سے اس میں ایک لاکھ کی کمی ہوئی تھی۔ امکان ہے کہ اس برس یہ تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ ایک ماہر کے مطابق 2021 میں تقریبا پینتیس لاکھ سے زیادہ گائیں، اڑتالیس لاکھ سے زیادہ بکرے اور بارہ لاکھ سے زیادہ بھیڑوں کی قربانی ہوئی تھی۔ اونٹ اور دیگر جانور اس کے علاوہ تھے۔ اس برس اس میں مزید اضافہ ہوگا جس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔
بالخصوص چمڑے کی صنعت میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی،جہاں ہزاروں افراد کا روزگار قربانی کی کھالوں سے وابستہ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک گائے کم سے کم ایک لاکھ پچیس ہزارروپے اور بکراکم سے کم پینتیس سے چالیس ہزار کافروخت کیا جارہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ لاہور، کراچی، سیالکوٹ اور ساہیوال کی چمڑے کی صنعت کو لاکھوں کے حساب سے کھالیں ملیں گی اورچمڑے کی صنعت میں تیزی آنے سے ہزاروں افراد کو روزگار میسر ہوگا۔
دوبرس قبل کے ایک جائزے کے مطابق اُس برس عیدِ قرباں کے موقعے پر چارے کی مد میں تقریباً دو ارب سے زیادہ کا کاروبار ہواتھا جس میں چارہ بیچنے والوں کے ساتھ محنت کشوں کو بھی روزگار میسر آیا تھا۔ جانوروں کی سجاوٹ کا سامان اور گھنگرو سمیت دیگر اشیاء بھی اہمیت کی حامل رہتی ہیں۔ اس سے بھی ہزاروں افراد کو مالی فایدہ ہوتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک کی خراب اقتصادی حالت کی وجہ سے لاکھوں افراد معاشی سست روی کی وجہ سے جزوی یا مکمل طور پر بے روزگار ہوئے ہیں دس ملین سے زاید جانور ذبح ہوں گے، جس سے ایک خطیر رقم غریبوں اور محنت کشوں کی جیب میں جائے گی۔ ہماری چمڑے کی صنعت مصنوعات برآمد کرتی ہے جس سے ملک کو اقتصادی فائدہ ہوگا اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔ عید کی وجہ سے نہ صرف عام اشیا کی خریداری ہورہی ہے بلکہ جانور بھی بڑے پیمانے پر خریدے جارہے ہیں جس سے معاشی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ملک کی متاثرہ معیشت کو فائدہ ہوگا۔
نئی منڈی، نئی مشکلات
اس مرتبہ کراچی کی مرکزی مویشی منڈی کو شہر سے بہت دور لگایا گیا ہے۔اس کی وجہ سے دو شکایات ہر شخص کی زبان پر ہیں۔ اوّل یہ کہ سفر طویل اور کرایہ بہت بڑھ گیا ہے۔ دوم، راستے میں لوٹ مار کی وارداتیں کثرت سے ہورہی ہیں۔ ترجمان مویشی منڈی، واقع ناردرن بائی پاس ،یاور چاولہ کے مطابق اس بار مویشی منڈی نئے مقام پر منتقل ہو چکی ہے جو جانوروں کے لیے سازگار جگہ ہے۔ سہراب گوٹھ پر سوسائٹیز بننے کے باعث وہاں کے رہایشیوں اور خریداروں کے ساتھ مویشیوں کے لیے بھی سازگار ماحول نہیں تھا۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں بارش کی صورت میں پانی نہیں رُکے گا۔یاور چاولہ کے مطابق 48 بلاکس پر مشتمل اس منڈی میں ڈبل روڈ ہیں اور شہری گلشن معمار، سپرہائی وے اور ناظم آبادسے یہاں آسکتے ہیں۔
اُن کے بہ قول تقریبا ڈھائی، تین کروڑ افراد مرکزی مویشی منڈی کا رُخ کرتے ہیں ۔ 700ایکڑ پر مشتمل اس منڈی میں اس سال 9لاکھ کے قریب جانور لائے جانے کی امید ہے۔
قصّابوں کی موج اور نخرے
عید قربان پر جہاں شہری جانوروں کی قربانی کے لیے تیار ہیں وہیں قصاب بھی چھریاں تیز کررہے ہیں۔ پہلے روز گائے کی کٹائی کے نرخ 8 سے 20 ہزار روپے اور بکرے کی قربانی کے لیےچھ سے دس ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ کئی علاقوں میں قصّاب منہ مانگے دام طلب کررہے ہیں۔ اس سال صرف جانوروں کی ہی قربانی نہیں ہوگی بلکہ قربانی کرنے والوں کی جیبوں پر بھی چھریاں چلیں گی۔ اگر قصاب آپ کا جاننے والا ہے تو سکون کا سانس لیجیے ورنہ اناڑی قصائیوں سے پالا پڑ سکتا ہے۔
شہر قائد میں پہلے روز گائے کی کٹائی کے نرخ کہیں 8 سے 10 ہزار تو کہیں پندرہ سے بیس ہزار مقرر ہیں۔ جانور تگڑا ہوا تو پیسے اور بھی تگڑے دینے ہوں گے ۔ بکرے کی کٹائی بھی سستی نہیں۔ قصائیوں نے پہلے روز چھ سے دس ہزار روپے کے نرخ مقرر کررکھے ہیں۔ اونٹ کی کٹائی 15 ہزار روپے سے شروع ہورہی ہے۔ کراچی میں دوسرے اور تیسرے روز وزن کے اعتبار سے گائے کی قربانی کے نرخ آٹھ سے پندہ ہزار اور بکرے کےلیے نرخ چار سے سات ہزار روپے مانگے جارہے ہیں۔ ایسے میں بعض شہری کہتے ہیں کہ قصائیوں سے بات نہ بنی تو مجبوراً خود ہی مل کر جانور قربان کرنا پڑیں گے۔
عید قربان قصّابوں کے لیے روزگار کے حوالے سے سال کا سب سے بڑا سیزن ہوتا ہے جس میں وہ گھنٹوں میں ہزاروں روپے کمالیتے ہیں۔ پیشہ ور قصائیوں کے ساتھ تھوڑا بہت تجربہ رکھنے والے عام افراد بھی دیہاڑی لگانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ نماز عید کے فوراً بعد جانور کو ذبح کرنے کے لیے قصائی کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں، بعد کے اوقات میں اور پھر دوسرے اور تیسرے روز معاوضہ کم ہوجاتا ہے۔ قصائی چربی بیچ کر بھی اضافی کمائی کرتے ہیں۔
قصّابوں کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں کے لحاظ سے قصائیوں کے مختلف ریٹ چل رہے ہیں جس میں پوش علاقوں، فینسی اور بھاری بھرکم جانوروں کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ فینسی جانور کو ذبح کا معاوضہ پہلے روز 15 سے30 ہزار روپے ہوتا ہے اور بعد میں 10 سے 15 ہزار روپے ہوجاتا ہے۔ بعض قصائی اکیلے جانوروں کی بکنگ کرتے ہیں اور وہ بکرے تو اکیلے ذبح کرتے ہیں، لیکن بڑے جانور کی قربانی کے لیے مدد گار رکھتے ہیں۔ زیادہ تر قصّاب اپنے ساتھ نسبتاً کم تجربہ کار قصائیوں کے گروہ کے ساتھ ایک ہی جگہ زیادہ جانورذبح کرنے کے ٹھیکے لیتے ہیں۔
بعض قصّا ب مل کرٹھیکے لیتے ہیں اور ملنے والے معاوضے کو برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ زیادہ تر تجربہ کار قصائی ،جسے استاد کہا جاتا ہے، دینی مدارس، فلاحی اداروں، انجمنوں اورخاندان کی سطح پر قربانی کرنے والے ایسے افراد سے ٹھیکے لیتا ہے جو بڑی تعداد میں جانور قربان کرتے ہیں۔ ٹھیکے کا معاوضہ طے پانے کے بعد وہ اپنے ساتھ کم تجربہ کار قصائیوں کو کام پر لگا لیتے ہیں۔
قصائیوں کے تجربے کے لحاظ سے 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک دیہاڑی دی جاتی ہے یعنی قصائی تجربے کے لحاظ سے 3 دن میں 6 ہزار روپے سے30 ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ ایک بکرا ذبح کرنے اوراس کے چار ٹکڑے کرنے کے بعد صفائی میں تقریبا ایک تا ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ بڑے جانور پر اگر ایک قصائی ہو تو تقریباً ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔تاہم اگر گروپ ہو تو ڈیڑھ گھنٹے میں کام مکمل ہوجاتا ہے۔بوٹیاں چھوٹی کرنے ، چربی صاف کرنے اور ہر حصے کا گوشت الگ الگ کرنے میں اضافی وقت لگ جاتا ہے۔ استاد کو دیہاڑی دینے کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق 30ہزار روپے یومیہ اور 3 روز میں 90ہزار روپے تک بچ جاتے ہیں۔
قصائی چربی بیچ کر بھی کماتےہیں۔ ایک قصائی کے مطابق گوشت بنانے اور صفائی کے دوران چربی بھی نکلتی ہے جس کا بڑا حصہ ضایع کرنے کے لیے الگ کیا جاتا ہے ۔قصائی اسے فالتو کہہ کرجمع کرتے ہیں اور چربی کے بیوپاریوں کو بیچ دیتے ہیں (بیوپاری اس چربی کو صابن کی فیکٹریوں،کباب بنانے والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ لانچ کی لکڑی کو پانی سے پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لیے بھی چربی ملی جاتی ہے)۔ایک اندازے کے مطابق 3 من کے جانور میں کم از کم 30کلو چربی نکلتی ہے اور اس حساب سے بڑے جانوروں سے چربی کی ضمن میں دو تا چار ہزار روپے تک اضافی مل جاتے ہیں۔
موسمی قصائیوں کو بھی اچھی دیہاڑی مل جاتی ہے۔ شہر میں تجربہ کار قصائیوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی اس سیزن میں طلب ہوتی ہے،اس لیے ناتجربہ کار قصائی بھی گروپ میں دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور بعض اکیلے بھی جانور ذبح کرتے ہیں۔ ایک قصّاب کے بہ قول جانور ذبح کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے،البتہ طریقے سے اس کا گوشت بنانا ایک فن ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد خود ہی قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے اور گوشت کی صفائی اور ٹکڑے بنانے کا کام میں بھی وہ لوگ خود کرتے ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ پیشہ ور قصائی کم وقت لگاتا ہے، صفائی سے کام کرتا ہے تمام گوشت کو ملانے کے بجائے ہر حصے کا گوشت الگ الگ کیا جاتا ہے اور بوٹیاں چھوٹی اور چربی کی صفائی اچھے طریقے سے کی جاتی ہے۔اس کے مقابلے میں ناتجربہ کار قصائی گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے بنا دیتا ہے، صفائی اچھی طرح نہیں کرتا، کھال کو بھی نقصان پہنچاتا ہےاور گردن، دستی، ران اور دیگر حصوں کے گوشت کو آپس میں ملا دیتا ہے۔تاہم قصائیوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے زیادہ مطالبات نہ ہوں، اُن کے لیے ناتجربہ کار قصائی بھی کافی ہوتے ہیں۔