• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قربانی کا گوشت ضرور کھائیں، لیکن احتیاط وعتدال کے ساتھ

پورے سال کی کسر چند ایام میں نکالنے کی کوشش، کئی بیماریوں کو موجب بن سکتی ہیں
پورے سال کی کسر چند ایام میں نکالنے کی کوشش، کئی بیماریوں کو موجب بن سکتی ہیں

’’عیدالفطر‘‘ کے تصوّر سے ذہن میں رنگا رنگ ملبوسات، نئے جوتے، چاند رات، منہدی، چوڑیاں، مٹھائیوں کے سجے سنورے ڈبّے، ٹوکرے، عیدی اور شیرخرما آجاتا ہے، تو عید الاضحیٰ اور گوشت لازم و ملزوم ہیں۔ بقر عید پر دنیا بَھر کے مسلمان سنّتِ ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اِس موقعے پر اربوں ٹن گوشت اکٹھا ہوتا ہے، جو مستحق افراد اور رشتے داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

اِس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 2ارب کے قریب ہے، اور ان میں صاحبِ حیثیت افراد کی تعداد، یعنی جن پر قربانی فرض ہے، کروڑوں میں ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو یہاں گزشتہ سال60سے70 لاکھ جانور قربان کیے گئے، جن میں گائیں، بکرے، چھترے، بھینسیں، بھیڑیں، دنبے اور اونٹ شامل تھے اور ان کی مالیت ایک اندازے کے مطابق تقریباً 500ارب روپے بنتی ہے۔

پاکستان میں تقریباً ہر صاحبِ حیثیت شخص قربانی کرتا ہے،جس کے نتیجے میں مَنوں گوشت اکٹھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹا گوشت( Mutton) ہو یا بڑا گوشت( Beef) منہگے داموں دست یاب ہے اور ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لائیو اسٹاک کے شعبے کی حالتِ زار، جانوروں کی ایک ہم سایہ مُلک اسمگلنگ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے مٹن اور بیف نہ صرف عام آدمی، بلکہ کھاتے پیتے گھرانوں کی پہنچ سے بھی دُور ہو چُکے ہیں۔

پھر یہ کہ پاکستان میں لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، جن کے لیے چھوٹا، بڑا گوشت تو تقریباً’’شجرِ ممنوعہ‘‘ہو چُکا ہے، جب کہ متوسّط طبقے کے دسترخوانوں پر بھی مَٹن کم کم ہی نظر آتا ہے کہ اِس کی جگہ چکن سے کام چلانے کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ جہاں ترقّی یافتہ ممالک میں فی کس گوشت کی سالانہ کھپت 93کلو گرام ہے، وہیں پاکستان میں یہ مقدار صرف 30کلو گرام ہے۔ ہمارے ہاں موجود لیبر فورس میں شامل30 سے35 ملین افراد مویشی پالتے ہیں، لیکن حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مویشیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، نتیجتاً جسمانی طاقت اور توانائی کا ایک بڑا غذائی جزو، گوشت، عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوچُکا ہے۔

ایسے حالات میں جب گوشت عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوچُکا ہے، ہر سال عید الاضحیٰ کی صُورت ایک موقع ایسا آتا ہے، جب تقریباً سال بَھر گوشت سے محروم رہنے والوں کو بھی یہ نعمت وافر مقدار میں میسّر آجاتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں، تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بقر عید پر اِتنے جانور ذبح کیے جاتے ہیں کہ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو، جس تک گوشت نہ پہنچ پاتا ہو۔ صاحبِ حیثیت افراد خود جُھگیوں، کچّی آبادیوں اور دیگر مقامات پر جاکر ضرورت مندوں تک گوشت پہنچاتے ہیں، جب کہ گوشت کی تقسیم کے ضمن میں کئی ادارے بھی اُن کی معاونت کرتے ہیں۔

کئی خاندان روایتی طریقے سے گوشت سُکھا لیتے ہیں اور پھر سارا سال اُسے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ عام گھرانے اپنے فریج، ڈیپ فریزرز گوشت سے بَھر لیتے ہیں اور پھر کئی دنوں تک نت نئے پکوانوں کی صُورت نئی نئی تراکیب آزمائی جاتی ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر عموماً خواتین کی گفتگو کا موضوع، گوشت کے پکوان ہی ہوت ہیں۔

اِس موقعے پر ہونے والی دعوتوں میں گوشت سے بنی ڈشز دستر خوان کا ایک اہم جزو ہوتی ہیں۔ قربانی کے فوراً بعد کلیجی سے شروع ہونے والا سلسلہ کبابوں، نہاری، سری پائے اور بار بی کیو کی صُورت کئی دنوں تک جاری ر ہتا ہے۔

اعتدال کا دامن

اکثر افراد عید کے موقعے پر گوشت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور اعتدال برقرار نہیں رکھ پاتے۔ یوں سمجھیے، گوشت کے درجنوں پکوانوں پر مشتمل دعوتوں کا ایک ایسا ٹورنامنٹ شروع ہو جاتا ہے، جو ہفتوں جاری رہتا ہے۔گوشت کے زیادہ اور بے دریغ استعمال کے ہماری صحت پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، اِس ضمن میں ہم نے معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر سے بات چیت کی اور اُن سے معلوم کیا کہ ایسے کون سے طور طریقے اختیار کیے جائیں کہ گوشت کے پکوانوں سے لُطف اندوز ہونے کے ساتھ، صحت بھی متاثر نہ ہو۔

واضح رہے، اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ماہرینِ امراضِ معدہ و جگر نے بھی ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق گوشت کھانے میں بے احتیاطی کئی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ عید کے بعد جب گوشت سے بنے پکوانوں کی بھرمار ہوتی ہے، تو متعدّد لوگ بیمار ہوکر اسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، گوشت بلاشبہ پروٹین کا خزانہ ہے، جس میں وٹامنز اور منرلز بھی پائے جاتے ہیں، لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال جسم میں کئی خرابیاں پیدا کر سکتا ہے۔ 

اسپتال آنے والے بیش تر مریض معدے، گیس اور قے وغیرہ کے ہوتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں پہلے سے لاحق کوئی بیماری، زیادہ گوشت کھانے سے بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کے بقول، عیدالاضحیٰ کے موقعے پر وہ لوگ بھی، جو عام طور پر بیف نہیں کھاتے، ضرورت سے زیادہ کھا لیتے ہیں کہ وافر مقدار میں جو ملتا ہے۔

نیز، بعض اوقات بڑی عُمر کے بیمار جانور بھی ذبح کیے جاتے ہیں، تو اُن کا گوشت مضرِ صحت ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کسی شخص کو دن میں 100گرام سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ زیادہ کھانے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول میں اضافے جیسے مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ 

عید کے موقعے پر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ گوشت کے ساتھ سلاد یا سبزیوں کا استعمال نہیں کرتے، حتیٰ کہ بعض افراد تو روٹی بھی نہیں کھاتے، صرف گوشت ہی کھاتے رہتے ہیں۔ پھر باربی کیوز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، جس سے قبض اور پیٹ کے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ جانوروں کی چربی آئل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

معالجین کا کہنا ہے کہ اگر گوشت کھانا ہی ہے، تو اس کے ساتھ دہی، رائتہ اور پھل بھی ضرور لیں۔ نیز، ویجی ٹیبل آئل استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر رات کا کھانا کہیں باہر یا ہوٹل پر کھاتے ہیں، تو اِس بات کا خیال رکھیں کہ باربی کیو میں گوشت کی بوٹی مکمل پکی ہونی چاہیے کہ آدھی پکی بوٹی نقصان دے سکتی ہے۔ 

ماہرین کولا مشروبات سے بھی پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ یہ مشروبات کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ کیلوریز میں اضافے، پیٹ میں گیس اور اپھارے کے ساتھ، یورک ایسڈ بڑھانے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ اِس ضمن میں قلب، جگر اور معدے کے مریضوں کو خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

فوائد و نقصانات

علّامہ اقبال میڈیکل کالج سے وابستہ، ماہرِ امراضِ معدہ و جگر، ڈاکٹر مختار احمد نےایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’گوشت خواہ مٹن ہو یا بیف، اس کے کافی فوائد ہیں۔ جیسے گوشت پروٹین کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اِس میں آئرن اور وٹامن بی بھی موجود ہوتا ہے۔ 

ڈاکٹر مختار احمد
ڈاکٹر مختار احمد

گوشت مسلز بنانے کے ساتھ ان کی مرمّت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بڑا گوشت خصوصاً آئرن کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ خون کی کمی دُور کرتا اور خلیوں تک آکسیجن پہنچاتا ہے۔ نیز، یہ وٹامن بی کے حصول کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے، جو اعصاب اور بلڈ سیلز کے لیے بہت ضروری ہے۔

گوشت میں زنک، سیلینم اور وٹامن بی کی اچھی خاصی مقدار شامل ہوتی ہے اور چوں کہ پروٹین بہت زیادہ ہوتا ہے، اِس لیے پیٹ جلد بَھر جاتا ہے اور یوں وزن اعتدال پر رکھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن غذائی اور طبّی ماہرین اِس امر پر متفّق ہیں کہ گوشت کا ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان کا باعث ہے۔ اعتدال سے نہ کھایا جائے، تو اس سے کولیسٹرول کی سطح اور امراضِ قلب کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ 

ماہرین، بیف کے زیادہ استعمال کو کولیسٹرول کے خطرات سے بھی جوڑتے ہیں، خاص طور پر بڑی آنت کے کینسر کو۔ اِسی طرح کئی اسٹڈیز میں گوشت کے زیادہ استعمال اور شوگر کے درمیان تعلق بھی ثابت ہوا ہے۔ اِسی قسم کی دیگر اسٹڈیز میں گوشت کے زیادہ استعمال کا Gout کے مرض سے بھی تعلق سامنے آیا ہے۔‘‘

کیا کرنا چاہیے…؟؟

ڈاکٹر مختار احمد نے گوشت استعمال کرنے کے ضمن میں کئی احتیاطی تدابیر تجویز کیں۔ اُن کے مطابق، ’’ انسانی جسم کو پروٹین کی روزانہ کی بنیاد پر ضرورت ہوتی ہے(کیوں کہ جسم اِسے اسٹور نہیں کر سکتا)، اِس لیے گوشت کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں، چاہے یہ بہت کم ہی کیوں نہ ہو، صحت کے لیے ضروری ہے، لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال مضرِ صحت ثابت ہو سکتا ہے۔خاص طور پر ان حالات میں، جب اکثر افراد ورزش تک نہیں کرتے اور گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ 

مرغی اور مچھلی کے گوشت کو بھی،جسے’’ White Meat‘‘ کہا جاتا ہے، خوراک میں شامل کرنا چاہیے۔ دنبے کا گوشت دوسرے جانوروں کے مقابلے میں ذرا دیر سے ہضم ہوتا ہے، جب کہ بھیڑ کے گوشت کی تاثیر گرم ہے، جسے معتدل بنانے کے لیے گوشت پکاتے وقت بڑی الائچی، دارچینی اور سیاہ زیرہ استعمال کرنا چاہیے۔ گائے کا گوشت ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ 

یہ بکرے کے گوشت کی نسبت، جسم کو زیادہ حرارت اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ تاہم، جو لوگ زیادہ محنت و مشقّت کے عادی نہ ہوں، اُنہیں یہ گوشت کم استعمال کرنا چاہیے۔ عید کے روز اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے وقفے وقفے سے گوشت استعمال کریں۔

یعنی اگر ایک وقت میں گوشت کھایا ہے، تو دوسرے وقت سبزی یا کوئی اور ہلکی غذا لینی چاہیے تاکہ گوشت آسانی سے ہضم ہو سکے۔ روزانہ یا زیادہ گوشت کھانے سے شوگر اور دل کی بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ سُرخ گوشت میں کولیسٹرول، چکنائی اور پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے خون کی شریانوں میں چکنائی بڑھ سکتی ہے اور وہ سخت ہو جاتی ہیں۔ گوشت کے سخت ریشے ہضم کرنے کے لیے معدے کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ 

اِسی طرح شوگر کے مریضوں کو کلیجی، گُردے اور مغز نہیں کھانے چاہئیں۔‘‘ ڈاکٹر مختار احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ ہمیں جو غذائیت گوشت کھانے سے ملتی ہے، وہ مچھلی، انڈے اور خشک میوہ جات میں بھی پائی جاتی ہے۔ اِس لیے گوشت کے شوقین اِن اشیاء کو بھی اپنی غذا کا حصّہ بنا سکتے ہیں۔ اگر گوشت مختلف سبزیوں کے ساتھ ملا کر پکایا جائے، تو اُس کے مضر اثرات کم ہو سکتے ہیں۔

کھانا چاہے گوشت ہو یا سبزی، ہمیں اعتدال کا دامن ہرگز ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عید الاضحیٰ کے موقعے پر بھی اعتدال اور میانہ روی برتنے کا اسلامی اصول یاد رکھنا چاہیے۔ ویسے بھی اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق گوشت کی تقسیم تین حصّوں میں منصفانہ طور پر کر دی جائے، تو پھر گوشت اِتنی مقدار میں بچنا ہی نہیں چاہیے کہ کئی ہفتوں تک نت نئی ڈشز بناتے رہیں۔ 

مَیں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ عید کے موقعے پر محض چٹخارے اور پورے سال کی کسر پوری کرنے کے لیے نادانستہ طور پر گوشت کا بہت زیادہ استعمال کرلیتے ہیں۔ شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اُنھیں کہیں سے آنے والے قربانی کے گوشت کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی، جب کہ مارکیٹ میں بیف اور مٹن کی قیمتیں آسمان چُھو رہی ہیں، تو اِن حالات میں مفت ملے گوشت سے’’پورا پورا انصاف‘‘ کیا جاتا ہے۔

اِسے مختلف پکوانوں کی صُورت استعمال کرتے ہیں اور یوں جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی زیادہ گوشت کھا لیتے ہیں، جس کی قیمت بہرحال بیماری کی صُورت ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔اگر دیکھا جائے، تو ضرورت سے زیادہ گوشت کھانے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ زائد مقدار ضائع ہو جاتی ہے، کیوں کہ جسم ایک دن میں کچھ مخصوص مقدار ہی جزوِ بدن بنا سکتا ہے، باقی سب ضائع ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ زائد مقدار معدے کی جلن، بدہضمی، قے اور اسہال کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ زائد مقدار کے جسم سے اخراج کا بوجھ گُردوں کو اُٹھانا پڑتا ہے اور وہ دباؤ کا شکار ہو کر خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ گرچہ عید کے موقعے پر گوشت کے پکوانوں میں مسالوں کا استعمال دراصل اسے زُدو ہضم بنانے کے لیے ہوتا ہے، لیکن اکثر افراد چٹخارے کے لیے ان مسالوں کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں، جس سے معدے اور جگر پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ’’جسم میں لحمیات کی کمی پوری کرنے کے لیے گوشت کا استعمال ضروری ہے، لیکن اس کے لیے دن میں اوسط سائز کی صرف دو یا تین بوٹیاں کافی ہیں، جن سے ہماری غذائی ضرورت باآسانی پوری ہو سکتی ہے۔ نیز، لوگ دال، انڈے اور سویابین کو بھی گوشت کے متبادل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘