• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ کے دین کی دعوت اور اس دعوت کے راستے میں آزمائشوں، مصائب اور امتحانات میں جس ہستی کو نمایاں مقام حاصل ہے، وہ حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت ہے۔ دعوت دین کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی ذات ایک بین الاقوامی اور عالمگیر داعی دین کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ قرآن کریم کی 25سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر کسی نہ کسی صورت میں آیا ہے۔

بالخصوص جن الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم ؑ کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ تمام کے تمام مبالغہ کے صیغہ (Superlative form)میں ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی پر قرآن کی روشنی میں غور کرنے سے ایسے ہزاروں رویے آشکار ہو کر سامنے آتے ہیں کہ ایک صاحب بصیرت انسان کا ذہن عش عش کر اٹھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت کو یہ اولیت حاصل ہے کہ اُن کی زندگی کو ایک مثال اور نمونہ عمل یعنی ’’اسوۂ حسنہ‘‘کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’تم لوگوں کے لئے ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں کی زندگیوں میں اچھا نمونہ ہے ‘‘۔ (سورۃ ممتحنہ 4:)حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی میںبچپن ، جوانی، بڑھاپا، سارے مراحل ہمارے لئے قابلِ تقلید اور لائق صدافتخار رہنمائی ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے جس معاشرے میں دعوت توحید کا آغاز کیا، وہ معاشرہ بنیادی طور پر مشرکانہ عقائد کی آماجگاہ تھا۔ اُن کے ہاں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بت پرستانہ عبادت کا مجموعہ ہی نہ تھا، بلکہ درحقیقت اس قوم کی پوری معاشی، تمدنی ، سیاسی او ر معاشرتی زندگی کا نظام اس عقیدے پر مبنی تھا۔ لہٰذا ابراہیمؑ نے جب شرک کے ابطال کی بات کی تویہ گویا پورے نظام کی تبدیلی کی بات تھی۔ 

حضرت ابراہیمؑ کی دعوت کااثر صرف بت پرستی ہی پر نہیں پڑتا تھا، بلکہ شاہی خاندان کی عبودیت و حاکمیت ، پجاریوں ، پنڈتوں، مذہبی پیشواؤں اور اونچے طبقے کی معاشی اور سیاسی حیثیت اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی بھی اس کی زد میں آتی تھی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ؑ کی دعوتِ توحید پورے مشرکانہ کلچر کی تبدیلی کی صدا تھی۔ ابراہیم ؑ کی دعوت توحید کے ردعمل میں گھروالوں، قوم، بادشاہ، غرضیکہ پورے معاشرے کی طرف سے دھمکیوں، عتاب، مصائب، سزاؤں کا ایک تکلیف دہ، اذیت ناک، ہلاکت خیز اور صبر آزما سلسلہ شروع ہوگیا۔ درحقیقت یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش و امتحان بھی تھا۔

حضرت ابراہیمؑ کی آخری آزمائش بیٹے کی قربانی تھی۔ بڑھاپے کی اولاد اور وہ بھی بڑی دعاؤں کے نتیجے میں ہونے والی، انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ اللہ کے برگزیدہ رسول و نبی حضرت ابراہیم ؑ کو اب بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا۔ قرآن کریم میں اس قربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ 

قرآن کے الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ نے اس قربانی کا ذکر اپنے بیٹے اسماعیل ؑ سے کیا اور فرمایا ’’بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بھلا تمہاری رائے کیا ہے؟ ‘‘ پاک بازباپ کے سرفروش بیٹے نے جواب دیا ’’ابا جان آپ حکم خداوندی کی تعمیل کریں۔ تو فضلِ خداوندی سے آپ مجھے صابر پائیں گے۔

اس مرحلے پر ایک قابلِ توجہ اور غور کے قابل یہ نکتہ ہے کہ انسان اپنی جان بچانے کے لئے اپنے تمام خزانے ، مال و متاع ہر چیز دینے کو تیار ہو جاتا کہ کسی طرح میری جان بچ جائے، لیکن یہی انسان اپنی اولاد کی جان بچانے کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کہ میری جان چلی جائے، لیکن میری اولاد کی جان بچ جائے، ابراہیمؑ کے کردار کی بلندی اور سیرت کی روشنی یہی ہے کہ آپ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں سر تسلیم خم کرتے ہوئے بیٹے کی قربانی پر رضا مندی ظاہر کر دی اور یہی وہ اطاعت کا جذبہ تھا کہ آپ نے ’’اول المسلمین‘‘ سب سے پہلے سر تسلیم خم کرنے والو ںکی صف میں اول اور بلند و بالا مقام پانے کا اعزاز حاصل کیا۔ 

حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے لختِ جگرحضرت اسماعیل ؑ کا صبر و استقامت پر مبنی حوصلہ افزا اور بے مثال جواب سن کر بیٹے کو قربانی کے لئے پیش کیا،لیکن اللہ کی رحمت و مشیت نے پیش قدمی کی اور اللہ نے ارض و سماء میں ’’قدصدقت الرّویا‘‘ ۔

اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ‘‘ کے نقارے بجادیئے فرمایا کہ ’’پھر جب دونوں(باپ بیٹے ) نے (اللہ کے حکم کے سامنے) سر تسلیم خم کر دیا ، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے اسے پکارا اے ابراہیم ؑ ! تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم اپنے محسنین کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں‘‘۔ (القران)

ان تمام امتحانات و آزمائشوں کے بعد بیٹے کی قربانی درحقیقت اسوۂ ابرہیمی کی معراج ہے اور اسی بناء پر اللہ نےآپ کو دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران قرار دیا، اسی قربانی کی بناء پر ابراہیمؑ کو رہتی دنیا تک کے انسانوں کا امام اور پیشوا بنایا، اسی منصب امامت کا ایک مظہر بیت اللہ کی تعمیر اور حج کا فرضہ ہے اور دوسرا یہ کہ رہتی دنیا تک اُن کی عزت و تکریم باقی رہے گی۔ گویا ابراہیمؑ کو دنیا و آخرت میں خصوصی کامرانی عطا فرمائی گئی۔ 

ابراہیمؑ کے اسوہ کی تکریم کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ دنیا میں انہیں کردار کا ایک اعلیٰ نمونہ قرار دیا گیا اور قربانی کے حوالے سے ان کے اور ان کے اہل بیت کے اعمال کو تقربِ الہٰی کے حصول کا ذریعہ بنا دیا گیا اور انہیں ایک الگ امت قرار دے کر آخرت میں انہیں بلند مقام عطا فرمایاگیا اور ایک منفرد حیثیت کا حامل قرار دیا گیا۔

ابراہیمؑ کی عظمت اُن کی اس ادا میں ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے بلا چوں وچراسر تسلیم خم کر نے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جب بھی کچھ کرنے کے لئے حکم دیا ،وہ بجا آوری کے لئے تیار کھڑے تھے۔ اطاعت اور تسلیم و رضا کا یہی رویہ انہیں ممتاز کرتا ہے۔