• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

..... میرے گھر والوں کو اطلاع دے دو۔ نام کیا ہے؟ افتخار احمد۔کہاں رہتے ہو۔ گلشنِ حدید۔ پروفیسر افتخار احمد بھٹو کی زبان سے نکلے یہ آخری الفاظ پوری دنیا میں سنے گئے۔ وقت آخر سے چند سیکنڈ پہلے کتنا اعتماد تھا چہرے پر۔ کتنی پرسکون تھی پیشانی۔ کتنی چمک تھی آنکھوں میں۔ پاکستان میں ایک اور کہانی ادھوری رہ گئی۔ ایک اور زندگی عین شباب میں رخصت ہو گئی۔35 سال کی عمر میں یہ معلم یہ مدبر یہ استاد کتنی نسلوں کی آبیاری کر چکا تھا اگر یہ پاکستان کی اوسط عمر کے مطابق 65سال تک پہنچتا 30سال اور زندہ رہتا تو کتنے نوجوانوں کو ریاضی کے اسرار و رموز سے واقف کرتا۔ پاکستان جو اس وقت اپنی سینچری کی طرف بڑھ رہا ہے 2025سے 2047 کے درمیانی 22سال کیلئے پروفیسر افتخار احمد بھٹو کتنے قیمتی تھے۔ ہم نے ایک ہولناک ٹرالر کے نیچے ایک شخص نہیں نہ جانے کتنی نسلیں کچل دیں۔ کوئی مہذب ملک ہوتا جہاں قانون کا نفاذ یکساں ہوتا۔ جہاں اپنی روایات اپنی اقدار کی حفاظت ہو رہی ہوتی۔ اپنے دینی شعائر کا احترام ہو رہا ہوتا۔ جہاں ہموطن ہموطنوں کی زندگی کی قدر جان رہے ہوتے۔ تو اس ٹرالر کا ڈرائیور وہیں موجود رہتا جائے حادثہ پر ایک ہموطن کو اس شدید جانکنی کے عالم میں چھوڑ کر نہ جاتا۔ کوئی ایسی تدبیر کرتا کہ ٹائر کو پروفیسر کے نچلے دھڑ سے اتار دیتا تو علم اور تدریس کا یہ دبستاں یوں خاموش نہ ہو جاتا۔ انکے لہجے میں کتنا تحمل تھا۔ وہ گمنام نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے اپنا نام بھی بتایا اپنے گلشن کا نام بھی بتایا۔ کون جانے اس وقت ذہن میں کیا کیا خیالات خدشات چل رہے ہوں گے۔ ہم جو ان قیمتی زندگیوں کی حفاظت کیلئے ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، گورنر ہاؤسوں، وزیر اعلی ہاؤسوں میں بیٹھے ہیں ریاست کے وہ ادارے جو ہمیں پرسکون محفوظ زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔ وہ ایسا معاشرہ کیوں تعمیر نہیں کر سکے۔ ایسی تہذیب کو جلا کیوں نہیں دے سکے ایسا سسٹم کیوں رائج نہیں کر سکے کہ جو جانیں بچ سکتی ہیں ان کو تو ہم بچا سکیں۔ اپنی بیٹیوں بہنوں کو بیوگی ویرانیوں سے دور رکھ سکیں۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں کو یتیمی کے اندھیروں سے بچا سکیں۔ ماحول اتنا سفاک کیوں ہو گیا ہے۔ ان اونچے گھروں کی آسائشوں سے تو ہمارے منتخب غیر منتخب فیض یاب ہو رہے ہیں۔ بڑے کھانے ہو رہے ہیں۔ بڑے عہدے بٹ رہے ہیں مگر ہمارے موتی، ہمارے لعل شاہراہوں پر بے بسی کی موت مارے جا رہے ہیں۔ یہ شہر قائد جہاں اڑھائی تین کروڑ انسان رہتے ہیں۔ کیا یہ جیتے جاگتے لوگ ہیں یا مجسمے۔ یا یہ سائے یا کٹھ پتلیاں ہیں بس یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک اور نوجوان ایک ڈمپر کی نذر ہو گیا۔ اسکے بعد ایک لمبی چپ۔ کراچی کا یہ مقام جہاں علم کا خون بہا ہے جہاں ریاضی کو بے رحمی سے روندا گیا ہے۔ داؤد چورنگی کے قریب یہاں کوئی طالب علم پھول رکھنے کیوں نہیں آیا جہاں کسی نے دیوار پر افتخار احمد بھٹو کی تصویر کیوں نہیں بنائی۔ چھیپا کے شاہد کہتے ہیں ہمیں ساڑھے سات بجے صبح اطلاع ملی ان کی ٹانگ پچھلے بھاری بھرکم ٹائروں تلے دبی ہوئی تھی وہ زندہ تھے اپنا پتہ بھی بتا رہے تھے ہم انہیں جناح ہسپتال لے گئے۔ سائرن بج رہا تھا اسپیڈ غیر معمولی تھی۔ راستے بھر ہماری دعا یہی تھی کہ اللہ تعالی انکی زندگی لوٹا دے۔ علم کے اس سر چشمے کو جاری رہنے دے۔ مگر خون بہت بہہ چکا تھا وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ہم روز ہی بہت سی ادھڑی کہانیاں اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اس موت نے ہمیں بہت رلایا ہے۔ ایک پروفیسر ایک استاد اس عمر میں اس طرح حادثے میں زندگی گنوا دے۔ اس موقع پر انکے غم زدہ بھائی وقار احمد بھٹو ہسپتال میں موجود تھے۔ وہی اس ورق ورق زندگی کو اس بکھرے ہوئے وجود کو گھر لے کر گئے۔ افتخار احمد کے قریبی احباب بتاتے ہیں یہ خاندان لاڑکانہ سے کراچی علم کی جستجو میں ہی آیا تھا۔ سب کو پڑھنے سے لگاؤ تھا۔ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں ہیں۔ جنگ کی ایک قاری ایک جواں سال ٹیچر عطیہ حسن نے ان کی ہمشیرہ سے بات کی۔ انہوں نے اس الم کے عالم میں بھی بہت تحمل سے بتایا ہم تین بہنیں تین بھائی ہیں۔ بہنیں بھی شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں تین بھائیوں میں سے ایک پہلے ہی ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو کر 28 سال کی عمر میں دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ اب افتخار 35 سال کی عمر میں چلے گئے ہیں۔ لاڑکانہ میں یہ بات عام ہے کہ بھٹو لمبی عمریں نہیں پاتے۔ افتخار صاحب کی رفیقہ حیات کی تو زندگی اجڑ گئی ہے۔ چار بچوں کی عمریں بھی 12سال سے کم ہیں۔ انہیں ایک لمبی زندگی گزارنی ہے۔ افتخار صاحب کے بچوں کو وہی تربیت دینی ہے جو ان کے عظیم والد کی آرزو تھی۔ افتخار صاحب لانڈھی کے ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ اس صبح سات بجے بھی وہ گلشن حدید سے اسی کالج کی سمت موٹر سائیکل پر رواں تھے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نامور استاد کے پاس ایک چھوٹی گاڑی بھی نہیں تھی اس کی درسگاہ نے بھی کسی سواری کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی جیسی عالمی شہرت یافتہ درسگاہ کی فیکلٹی میں بھی تھے زیبسٹ کی صدر ایک درد مند پاکستانی ماہر تعلیم شہناز وزیر علی نے اس جواں مرگ صاحب علم کے لیے فاتحہ خوانی کا بھی انعقاد کیا۔ ہمارا مستقبل لانڈھی فیوچر کالونی میں بہت سے لوگوں کے سامنے تڑپا ہے۔ بچے پوچھ رہے ہیں کہ ہم ان کی جان کیوں نہیں بچا سکے۔ روزانہ پاکستان کے بیٹے، شہر قائد کے فرزند سڑکوں پر کچلے جا رہے ہیں۔ ہماری چورنگیاں کتنی قاتل ہو گئی ہیں۔ جواں سال جواں عزم میئر کراچی کہاں ہیں۔ کیا وہ اس گھر میں گئے جہاں اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے تو کراچی کی یونیورسٹی سے ہی تعلیم حاصل کی وہ گلشن حدید کیوں نہیں گئے۔ صدر مملکت بھی کراچی کے ہیں کیا انہوں نے اپنے کراچی کیمپ آفس سے معلوم کیا کہ یہ ناگہانی حادثہ کیوں پیش آیا۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر لوہانو کہتے ہیں کہ شارع فیصل کراچی کی شہ رگ ہے لیکن گلشن حدید سے لے کر جناح اسپتال تک40 کلومیٹر کے فاصلے میں حکومت سندھ کی طرف سے فوری طبی امداد کی کوئی سہولت نہیں ہے پرائیویٹ ہسپتال ہیں وہ ایسے زخمی نہیں لیتے۔ ویڈیو بنانے والے ویڈیو بناتے ہیں یا کسی نے افتخار صاحب کو پانی پلایا؟ کسی نے کوئی طبی امداد دی؟ جگہ جگہ مفت دستر خوان تو ہیں لیکن فوری طبی امداد کے انتظامات نہیں ہیں۔ اللہ تعالی اس غمزدہ خاندان کو صبر جمیل عطا کرے۔ انکے ہاں جو علم کے چشمے ہیں انہیں جاری رکھے اور افتخار احمد بھٹو کی چار نشانیوں کو علم کے آفاق پر چمکنے دمکنے کا موقع عنایت فرمائے۔آمین

تازہ ترین