• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سا ئبر کر ائم بل حکومتی نہیں پارلیمنٹ کا ہے، انوشہ رحمان

کر اچی ( ٹی وی رپو رٹ )جیو نیوز کے  پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں گفتگو کر تے ہو ئے سینیٹر عا جز دھامرہ، شا ہد خاقان عبا سی، عمران اسما عیل اور انو شہ رحمان نے کہا کہ اگر  ناظرین کا مطالبہ ہے تو  جیو  دکھانا چاہیئے ،  جیو کو اپنے نمبر پر رکھنا چاہیئے ، عوام کو اس سے محروم نہیں رکھا جا ئے، سند ھ میں نئے وزیر اعلیٰ کے منتخب ہونے کے حوالے اور سندھ میں تبدیلی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنماء سینیٹر عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ ہر جماعت کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے اور لیڈر شپ کا ایک قدم ہے  وزیر اعلیٰ سندھ کی تبدیلی ، نئے وزیر اعلیٰ نے ابھی حلف لیا ہے ان کی ایک اپنی سوچ ہے اس کے مطابق انھیں تھوڑا چلنے دیں ۔کراچی میں جیو کی بندش کے حوالے سے پیمرا نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے ، میرا مطالبہ ہے کہ جیو کو اپنے نمبر پر رکھنا چاہیئے اور عوام کو اس سے محروم نہیں رکھنا چاہیئے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنماء شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جمہوری قوتیں اپنی طاقت آئین سے حاصل کرتی ہیں۔حکومت کی طاقت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس ملک میں آئین کی قدر ہو گی ، چینل کے حوالے سے میں اتنا کہوں گا کہ مجھے یا آپ کو اس  بات کا پورا علم نہیں ہے کہ کیا پیمرا پابند کر سکتا ہے کسی کیبل آپریٹر کو کہ وہ ہر چینل دکھائے یا چینل کو کسی مخصوص نمبر پر دکھائے۔کیا ہر چینل دکھانے پر ہر کیبل آپریٹر پابند ہے؟یہ ایک سوال ہے جس کا میرے پاس کم از کم جواب نہیں ہے۔ آپ کیبل آپریٹرز سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کا چینل کیوں نہیں دکھا رہے ہیں ۔آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ایک کیبل آپریٹر کو چینل چلانے کا  پا بند کرے۔اگر ناظرین کا مطالبہ ہے تو وہ  چینل دکھانا چاہیئے۔سندھ کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قائم علی شاہ کی معاملات پر گرفت کمزور ہو گئی تھی اوروہ توقعات کو پورا نہیں کر پا رہے تھے تو پارٹی نے انھیں تبدیل کر دیا جو کہ پارٹی کا جمہوری حق ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ مراد علی شاہ توقعات پر پورا اتر پاتے ہیں یا نہیں؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماء عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ مراد علی شاہ سے کافی امیدیں ہیں ، ان کے آنے سے تبدیلی آنے کا امکان ہے کیوں کہ قائم علی شاہ کی حکومت ڈیمو کریسی نہیں بلکہ ایک پھوپھو کریسی پر چل رہی تھی۔ انتخاب کے بعد ہم نے انھیں آفر کی ہے کہ ہماری جہاں ضرورت ہو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہونے کوتیار ہیں،سندھ کی بہتری کے لئے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ سندھ میں وفاق کی مداخلت اور سندھ کو چلا نے  کے حوالے سے شاہد خا قا ن عبا سی کا کہنا تھا کہ وفاق کی سندھ میں مداخلت سندھ حکومت کی رضامندی سے ہے اس کے بغیر نہیں ہے، وہاں پیپلز پارٹی نے ہی حکومت کرنا ہے اورڈلیور کرنا ہے چاہے وہ قائم علی شاہ سے کروائیں یا مراد علی شاہ سے۔جو بھی حکم ہوتا ہے وہ وزیر اعلیٰ کا ہوتا ہے اور ایجنڈا پارٹی کا ہوتا ہے ۔اگر وزیر اعلیٰ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ کسی اور سے ڈکٹیشن لیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس پر عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ وفاقی ادا ر ے ان کی معلومات کے بغیر صوبے میں آرہے ہیں، ایف آئی اے ہو یا نیب ہو۔ابھی جب رینجرز کا معاملہ ہوا تو وزیر داخلہ وزیر اعلیٰ سندھ سے آکر بات کرنے کو تیار نہیں لیکن وہ میڈیا میں آکر بیان دیتے ہیں کہ نہیں ہم تو اپنی مرضی سے رہیں گے اور براہ راست رینجرز سے بات کرتے ہیں۔یہ بات واضح ہونا چاہیئے کہ وفاق کی مداخلت ہے اس معاملے میں۔ اس دوران رینجرز اختیارات پر عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ نئے وزیر اعلیٰ اس معاملے پر پرانی پالیسی ہی لائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رینجرز جب دہشت گردوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے کرپشن کے معاملات پر گئی تو پھر پیپلز پارٹی کو بہت تکلیف ہوئی۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں سائبر کرائم بل منظور ہونے کے حوالے سے وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کا کہنا تھا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران نے جب شق وار جائزہ لیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ جس طرح مسودہ قانون کی تصویر پیش کی گئی ہے وہ چیزیں اتنی بری یا خطرناک نہیں ہیں یا ان کی ضرورت کیا ہے۔میں نے بطور حکومت قومی اسمبلی کو ایک 45 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز بھیجا تھا اس مسودے میں ارکان اسمبلی نے ترامیم کیں اور بہت سی شقیں اس میں شامل کیں۔سینیٹ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے اس کو دیکھا  دو تین دن ان کی عوامی سماعتیں ہوئیں پھر شاہی سید نے خود پبلک ہیئرنگ کی ۔یہ بل کسی حکومت کا نہیں پارلیمان کا بل ہے تمام لوگوں نے اس پر تندہی کے ساتھ کام کیا ہے۔عوام نے جن نمائندگان کو ووٹ دے کر بھیجا ہے وہ اپنے لوگوں کی آواز کو جانتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں بے شمار قانون بنے ہوں گے کیا آپ نے کوئی قانون صرف اس لئے نہیں بنایا کہ کہیں  اس کا  کوئی غلط استعمال نہ ہو جائے؟ہم نے اس قانون میں جتنا تحفظ دینے کی کوشش کی ہے معصوم شہریوں کو یہ کسی قانون میں پہلے حا صل نہیں ہوا۔ اس بل کو گزشتہ حکومت میں بھی دیکھا اور اپنے دور میں بھی اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس بل کو نہ بنوانے پر جتنا دباؤ تھا اتنا اس بل کو ٹھیک کرنے پر نہیں تھا ۔ قانون کے نفاذ پر انوشہ رحمان کاکہنا تھا کہ اس حوالے سے ایف آئی اے کے پاس جو درخواستیں آئیں گی تو وہ اس پر عمل در آمد کرسکیں گے کیوں کہ اب قانون موجود ہے ۔اس حوالے سے پارلیمنٹ میں ایف آئی اے کی سال میں دو بار رپورٹ آئے گی۔ پروگرام کے آخری حصے میں جیو کی کراچی میں بندش کے حوالے سے میزبان طلعت حسین کا کہنا تھا کہ سپریم کور ٹ  کے ایک فیصلے کے مطابق جیو کو اسی نمبر پر چلنا ہے جس نمبر موجود تھا 2014 میں اس فیصلے کا اطلاق پیمرا سمیت تمام اداروں پر ہوتا ہے ۔جمہوری حکومتوں کو چینلز کو بتانا ہے کہ چینل کس طرح بند ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد کیا بتائی جاتی ہے۔اگر شکایت نہیں اور نتیجہ چینل کے خلاف ہے تو آپ تدارک کس طرح کریں گے جو بند کرتے ہیں کیا ان کا کون نام لے گا؟کسی چینل کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیئے۔وفاقی حکومت نے یہ ذمہ داری اٹھائی ہے کہ جیو کو ان نمبروں پر واپس لایا جائے جن وپر وہ پہلے تھا دیکھتے ہیں اس امتحان میں وہ کامیاب ہو تی ہے یا نہیں؟
تازہ ترین