• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب عطاء الحق قاسمی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سیکڑوں قلم کاروں ، شاعروں، ادیبوں، نقادوں، صحافیوں اور ماہر تعلیم کوایک جگہ اکٹھا کیا اور لاہور آرٹس کونسل یا الحمراء آرٹس کونسل کی تین روزہ عالمی کانفرنس کے موقع پر ’’بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں‘‘ کے عنوان سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان مشاہیر نے اپنے بیتے دنوں کی خوشگوار یادوں سے محظوظ کیا۔ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں میں سماجی کارکن سیاست دان، کھلاڑی، فلم اور اسٹیج اداکار، بیوروکریٹ، مصور، سائنسدان اور علمائے کرام کے علاوہ گلوکار بھی شامل تھے، بہت سے احباب کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا،علم میں اضافہ ہوا بہت سیکھا ان تین دنوں میں اس قدر ہنس کھیل لیا کہ اب مہینوں ہم کسی تفریح کے بغیر زندگی کر سکتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی صاحب کی میزبانی اور حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ ان تین دنوں میں صبح دس بجے سے رات2بجے تک دامے درمے سخنے وہاں موجود رہے، اس سہ روزہ تقریب میں ہرکسی نے اپنے حصے کاکام بخوبی انجام دیا بعضوں نے اپنے علاوہ دوسروں کے حصے کاکام بھی کرڈالا مثلاً صغراصدف صاحبہ اپنے بیتے دنوں کی یادیں سنانے اسٹیج پر گئیں تو اسٹیج میزبان کی تھوڑی تاخیر سے پہنچنے کے عرصے کے دوران انہوں نے خود ہی پروگرام کا آغاز کردایا اور اپنی باری پر یادیں بھی سنادیں، اسی طرح الحمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد علی بلوچ ہر جگہ بنفس نفیس موجود رہے اور مہمانوں کو سہولتیں پہنچاتے رہے لاہور آرٹس کونسل کے پی آر او صبح صادق کی شگفتہ مزاجی اور کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار علی زلفی کی سنجیدہ بیانی مہمانوں کو گرویدہ کرتی رہی لاہور آرٹس کونسل کے دوحصے ہیں ایک قذافی اسٹیڈیم کے پاس اور دوسرا مال روڈ پر دو حصوں کے ہالز کی سالانہ آمدنی تقریباً دو ڈھائی کروڑ ہیں، وہ بھی اگر سارا سال ہالز کرائے پر لگے رہیں توکونسل کا اپنا سالانہ بجٹ گیارہ کروڑ روپے ہے ڈھائی سو افراد پر مشتمل عملے کی تنخواہیں ہالز سارے ائرکنڈیشنڈ ہیں بجلی کے بلز تین کوچز کے اخراجات بعض دیگر گاڑیوں کا پیڑول گویا بمشکل ادارہ اپنے محدود بجٹ میں کام کررہا ہے لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین جناب عطاء الحق قاسمی ادارے کے ساتھ رضا کارانہ طور سے وابستہ ہیں وہ کسی قسم کی کوئی رعایت یا معاوضہ نہیں لیتے، ان گزرے تین دنوں میں آرٹس کونسل والوں نے اپنے مہمانوں کوشاہانہ طور سے رکھا، ہر مہمان کے لئے الگ کمرہ تھا ہوٹل کا انتخاب بھی درجہ اول میں تھا، مہمانوں کودوسرے شہروں سے پورے پروٹوکول اور اعزاز کے ساتھ منگوایا گیا تھا واپسی پر شایان شان طریقے اور زادہ راہ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے روانہ کیا گیا گویا لاہور آرٹس کونسل کے بجٹ میں رب تعالیٰ نے برکت ڈال دی تھی مختلف قسم کے کھانوں اور ناشتے بوفے کاجواب ہی نہ تھا ان تین دنوں میں ہم نے اپنے بیتے ہوئے دنوں کی یادیں سنی بھی اور سنائیں بھی کلچر کی آبیاری بھی ہوئی ایک نئی تاریخ بھی رقم ہوتی رہی اور ہم outingکے موڈ میں انجوائے بھی کرتے رہے آزاد کشمیر کی نمائندگی سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر اکرم سہیل صاحب نے کی جنہوں نے اپنی یادیں بھی سنائیں اور مقبوضہ کشمیرجموں سے پرتپال سنگھ بیتاب نے نمائندگی کی پرتپال سنگھ بیتاب ایک ایسی قلمی میراث ہیں جنہوں نے بھارت میں نوری نستعلیق اردو خط زندہ رکھا ہوا ہے انہوں نے اپنی کتابیں دیں جن میں ’’نظم اکیسویں صدی میں‘‘ خودرنگ ، شعری مجموعہ اور ایک کرشن کمار طور کا سرسبز کا پرتپال سنگھ بیتاب نمبر جبکہ بیتاب صاحب نے جموں پہنچ کر ایک نئی کتاب بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔
لاہور آرٹس کونسل کی یہ تین روزہ کانفرنس ہمارے لئے اس حوالے سے اچھی رہی کہ اس دوران ہمیں بہت سے اہل قلم نے کتابیں دیں بعضوں نے کتابیں بھیجنے کا وعدہ کیا جن میں جناب انور شعور، ڈاکٹر پروفیسر فاطمہ حسن، ڈاکٹر نجیب جمال اور پروفیسر انور محمود خالد شامل ہیں جبکہ کتابیں دینے والوں میں یونس جاوید صاحب سرفہرست ہیں، جن کی آپ بیتی سن کر ہم پر کھلا کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں، انہوں نے ’’رباسچیارب قدیر‘‘ کنجری کا پل، اور سلونت سنگھ کا کالا پل‘‘ شامل ہیں، کالم نگار اور منصورآفاق نے اپنا مجموعہ ’’دیوان منصور‘‘ دیا، جناب حسین احمد شیرازی نے اپنے بیتے دن بھی سنائے اور اپنی تحریروں کا ضخیم اور خوبصورت مجموعہ’’ بابو نگر‘‘ بھی دیا ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنا ماہنامہ نمودحرف‘‘ بھی دیا، جناب ناصر علی سید نے اپنی تخلیق ’’ادب کے اطراف میں ’’دیا، جب چوتھے دن گھر پہنچے تو ’’اردو معیاراور استعمال‘‘ ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی ’ لسانی لغت‘‘ جو میرپور آزاد کشمیر کے غازی علم الدین کے حوالے سے لکھی گئی ہیں،پہنچ چکی تھیں، پروفیسر بخاری علم الدین کی کتاب تنقیدی وتجزیاتی زاویئے بھی مل چکی تھی اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کی کتاب‘‘ سونے کی چڑیا کانچ کا مقدر بھی فردوس نظر بنی۔
اس تین روزہ کانفرنس کے روزانہ دوتین سیشن ہوتے رہے ہیں تینوں ہالز میں الگ الگ ہوتے تھے پہلی رات نگہت چوہدری کا کتھک رقص ہوا دوسری رات پاک بھارت مشاعرہ اور آخری رات ٹینا ثانی کاگانا ، باتیں بہت زیادہ ہیں مگر حوالے کے لئے چند جملے ، اوپننگ سیشن میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی برادرانہ محبت کے حوالے سے ایک کرکٹ میچ کا واقعہ سنایا، گلوکارہ ثریا ملتانیکر نے بیوہ ہونے کے بعد کی پرورش کے حوالے سے ،مشکلات کادل دہلادینے والی کہانی سنائی، ممتاز ناول نگار عبداللہ حسین نے اپنے بچ نکلنے کا قصہ بیان کیا، جیو کی چڑیا نجم سیٹھی صاحب نے پنجابی زبان میں مشکل وقت میں معاشرتی بے حسی کی داستان سنائی، میں نے ان سے کہا کہ سیٹھی صاحب اگر آپ پنجابی میں نہ سناتے توکہانی پھیکی رہتی تھی،وہ بولے درد اپنی زبان میں ہی بھلا لگتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا ماں کہا کرتی تھی اقبال شاعری چھوڑوکالت کر تاکہ گھر چلے اور والد صاحب ہنس کے بات ٹال جایا کرتے تھے الغرض سب نے کہانیاں سنائیں ہم نے بھی بیتے دن یاد کئے جوبیت گیا سو بیت گیا مگر لاہور آرٹس کونسل کے یہ بیتے ہوئے تین دن شاید نہ بھلائے جاسکیں۔چلتے چلتے آخری بات کہ24مئی کوہال نمبر3میں جب بھارتی اسکالر ابوالکلام قاسمی نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں بھارت میں بہت ترقی ہوئی ہے تو میرے ساتھ بیٹھے جموں سے بیتاب نے کہا کہ اس سے پوچھیں کہ اگر بھارت میں ترقی ہوئی ہے تو پھر کانگریس انتخاب کیوں ہار گئی۔مگر ہم نے آداب میزبانی کا خیال کرتے ہوئے کسی قسم کا کوئی استفسار نہیں کیا البتہ ہمیں اندازہ ہے کہ بھارت میں گزشتہ دس برسوں میں رج کے کرپشن ہوئی ہے مالی کرپشن۔
تازہ ترین