• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبّت کی بات کی جائے، تو عُمرِ عزیز کے مختلف ادوارمیں یارانِ من کے تصوّر میں مختلف اقسام کی محبّتیں اُبھرتی ہیں۔ عہدِ شباب میں چاہت کے بارے میں سوچتے ہی موسم رنگین ہوجاتا ہے، دل کی کلیاں کِھل اُٹھتی ہیں، چار سُو شہنائیاں گونجنے لگتی ہیں اور فضا میں خوش بُوئیں سی بِکھرجاتی ہیں۔اُدھیڑ عُمری میں محبّت کے ساتھ ہی عموماً کسی مُرشد، استاد، لیڈر یا کسی محسن کی شبیہہ ذہن پر چھا جاتی ہے۔ 

کبھی دل زانوئےتلمّذ تہہ کرتا محسوس ہوتا ہے، تو کبھی عقیدت و احترام سے سَر کو جُھکا دیتا ہے۔ اگر پیری میں لبوں پر پریت کا نام آ جائے، تو دل نُورسےبَھرجاتا ہے۔ دُنیا اور دنیوی رشتے ناتے سبھی ہیچ نظر آتے ہیں کہ اس عُمر تک پہنچتے پہنچتے وجدان کے کئی باب وا، ادراک کےکئی دَرکُھل چُکے ہوتے ہیں۔ 

اِس لیے محبّت اپنےاصل یعنی خدا کےطواف اوراس کے رسولؐ کے مدار میں گردش کرتی ہے، تو دل صبر و رضاکا آئینہ بن جاتا ہے۔ ایسے میں محبّت صرف جذبہ نہیں رہتی، عبادت بن جاتی ہے۔ سجدوں میں ڈھل جاتی، پیشانیوں پہ نظر آنے لگتی ہے۔ انسان کی نظر جب دُنیا سے اُٹھتی ہے، تو اُس حقیقت پرجم جاتی ہے کہ جس کی طرف تمام راستے لوٹتے، تمام محبّتیں پلٹتی ہیں۔

لیکن! ایک محبّت ایسی بھی تو ہے کہ جو بچپن سےلےکر موت کی آغوش تک، کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی، ہمیشہ ساتھ رہتی ہے، ہر دُکھ سُکھ میں، ہررنج و الم میں۔ وہ کون سی محبّت ہے بھلا؟ وہ ماں کی محبّت ہے، جو ہمیشہ سَر پہ سایہ فگن محسوس ہوتی ہے۔ جو روشنی بن کر زندگی کی اندھیری راہوں میں ہمیں ٹھوکریں کھانے سے بچاتی ہے اور جو ایک دُعا بن کر لبوں سے نکلتی ہے، تو عرش تک کو ہلا دیتی ہے۔ 

ہم نے ایک مرتبہ اسّی، نوّے سال کے ایک بزرگ کو گرکر چوٹ لگ جانے پر’’ہائے میری ماں، ہائے میری ماں‘‘ پکارتے دیکھا، تو دل میں خیال آیا کہ ’’اِن کی ماں کو تو شاید جہاں سے گزرے ہوئے بھی قریباً نصف صدی گزر چُکی ہوگی، لیکن یہ اب بھی اُس کی محبت کے اسیر ہیں۔‘‘

چاہت والفت کی مذکورہ بالا تمام اقسام میں باپ کی محبّت کا کہیں تذکرہ نہیں، کیوں کہ وہ ’’خاموش‘‘ ہوتی ہے اور اُس کے محسوس نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ماں کی محبّت بھی ہے کہ ماں کی محبّت موسلا دھار بارش کی مانند ہوتی ہے، جو آپ کو سَر سے پاؤں تک شرابور رکھتی ہے، جب کہ باپ کی چاہ خاموشی سے گرتی اوس کی مانند ہے، جو آپ کی توقّعات، اُمیدوں کے سوتوں کو خُشک نہیں ہونے دیتی، مگر کبھی دکھائی نہیں دیتی۔ 

ماں کی اُلفت منہ زور سیلابی ریلے کے بہتے پانی کی مانند ہوتی ہے کہ جو اپنی راہ میں آنے والی ہرچیزکو بہا لے جاتا ہے اور باپ کی چاہت کسی ٹھنڈے میٹھے چشمے کی طرح پُرسکون، مگر ہمیشہ لب ریز، جو بظاہر تو چھوٹا دکھائی دیتا ہے، مگر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ماں کی پریت بی بی حاجرہؑ کا پیاس سے بلکتے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں بےتاب ہو کر صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے بیچ، بار بار دوڑنا اور باپ کا پریم حضرت یعقوبؑ کا اپنے گُم شدہ بیٹے، حضرت یوسفؑ کی جدائی میں رو رو کر بینائی کھو بیٹھنا ہے۔

باپ کی محبت کو ہم دیکھ ہی نہیں پاتے، کیوں کہ وہ کبھی بھی اولاد سے اپنی بے لوث چاہت کو الفاظ میں نہیں ڈھالتا، اُنہیں بانہوں میں سمیٹ کر اپنا لگائو ظاہر نہیں کرتا، لیکن وہ چُپ چاپ، مسلسل، ہرآن، ہر پل اور ہرلمحہ اپنے خوابوں، اپنی خواہشات، نیند، آرام و سُکون یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی عزتِ نفس تک کو بھی اپنی اولاد پر قربان کرتا رہتا ہے تاکہ اُن کے لیے زندگی کے راستے کچھ ہم وار اور آسان ہوجائیں۔

یہ ایک باپ ہی ہوتا ہے، جو سردی، گرمی کی پروا کیے بغیر روزانہ گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے، کیوں کہ اُسے اپنے بچّوں کی روزی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔ اُسے اُن کی اسکول کی فیس بھرنی ہوتی ہے، اُن کی دوا دارو اور علاج معالجے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ بیٹے کے خواب پورے کرنے ہوتے ہیں اور بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہوتے ہیں۔ وہ مُسکرا کر ہر مصیبت کا سامنا کرتا ہے۔ 

 وہ کبھی سردی کی بارشوں میں بھیگتا ہے، تو کبھی گرمیوں کی کڑکتی دُھوپ میں اپنی ساری توانائی پسینے میں بہا دیتا ہے، لیکن شام کو گھر واپس آتا ہے، تو بچّوں کے لیے مسکراہٹیں کما کرلاتا ہے اور خُود اپنی تھکن کو سب کی نظروں سے ہمیشہ چُھپا کررکھتا ہے۔ اسی لیے تو ہم میں سے اکثر باپ کے اس ایثار اور محبت کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ بچّوں کو لگتا ہے کہ ابّو ہم سے دُور دُور رہتے ہیں، ہم سے بات نہیں کرتے، ہمیں وقت نہیں دیتے، ہمارے ساتھ کھیلتے نہیں، ہمیں ہوم ورک نہیں کرواتے، ہمیں گُھمانے پھرانے نہیں لےکرجاتے یا ہماری فرمائشیں نہیں پوری کرتے۔ 

دراصل، یہ معصوم ذہن باپ کے اندر بھی ماں کی جوش مارتی محبّت ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، جو صُبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات آنکھ بند ہونے تک بلکہ شاید سوتے میں بھی اپنا ہر پل اپنی اولاد کے نام کر رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باپ کی محبت اور ذمّےداریوں کا احساس یا اعتراف کرنےمیں ہمیں اکثر بہت دیر ہوجاتی ہے۔

اللہ بخشے ہمارے ایک جاننے والے تھے۔ وہ ایک دن نہایت افسردہ حالت میں ہمارے پاس تشریف لائے اور نہایت دل سوز انداز میں اپنے بیٹوں کی بدسلوکی کی رُوداد سنائی۔ تفصیل کا تو خیر یہاں محل نہیں، لیکن جس بات نےاُن کے دل کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی تھی، وہ سب سے چھوٹے صاحب زادے کا یہ فرمانا تھا کہ ’’آخر آپ نے ساری عُمر ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘‘ وہ روتے جاتے اور زیرِلب یہ جملہ دُہراتے جاتے۔

ہم نے اُنہیں تسلی وتشفّی دینے کی کوشش کی، حالاں کہ اس موقعے پرہمیں خُود اپنے الفاظ کےکھوکھلے پن پر شرمندگی محسوس ہورہی تھی، لیکن ان کےکرب کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہ تھا کہ اُنہوں نے ہمارے سامنے پوری زندگی سخت محںت ومشقت کرتے گزاری تھی۔ اپنی اولاد کو پوری ایمان داری سے ہمیشہ لقمۂ حلال کھلایا تھا۔ 

ہم نے سوچا کہ نہ جانے اُن کے صاحب زادوں نے اُن سے کون کون سی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔ اب ہر باپ تو اپنی اولاد کے لیے کوٹھیاں، جاگیریں چھوڑ کر نہیں جاتا۔ ہمارا خیال تھا کہ اُن کے صاحب زادے تو اپنی اولاد کے لیے ضرور جائیداد چھوڑ کر جائیں گے، لیکن ہوا کیا؟ والد کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد صاحب زادوں نے باپ کا بنایا گھر بیچ کے حصّے بخرے کیے۔ 

سال دو سال میں تمام پیسا اُڑا دیا اور اب انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ وہ آسائشیں، مان اور باہمی محبّت رہی، جو ان کے والد کے دَورمیں میسّر تھی، جب کہ آج وہ خُود بھی باپ ہیں، لیکن اپنے بچّوں کو ایسا کچھ بھی نہیں دے پا رہے، جو کچھ اُن کے والد نے اُنہیں فراہم کر رکھا تھا، حالاں کہ اُن کے والد کو وراثت میں کوئی جمع پونجی نہیں ملی تھی۔ 

اُن کی کُل جاگیر، اُن کا زورِ بازو اور جسمانی توانائی تھی، جو وہ آخری سانس تک اپنی اولاد پرصرف لٹاتے رہے۔ آج اُنہیں اس حال میں دیکھ کردل کڑھتا ہے، مگر پھر رہ رہ کے ایک ہی جملہ کانوں میں گونجے جاتا ہے’’آخر آپ نے ساری عُمر ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے…؟؟‘‘