غزہ پونے دوسال سے ناجائز صہیونی ریاست کی وحشیانہ جارحیت کا شکار ہے، پچپن ہزار فلسطینی بچے اور مرد وزن اسرائیلی فضائیہ کی مسلسل بمباری اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں جبکہ غزہ کی بچی کھچی آبادی تک غذائی اور طبی امداد پہنچانے کے راستے بھی مکمل طور پر بند کر رکھے گئے ہیں۔ اس بہیمانہ روش کا تازہ مظاہرہ سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں بارہ کارکنوں پر مشتمل فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی امدادی کشتی میڈلین کو غزہ پہنچنے سے روکے جانے کی شکل میں ہوا ہے‘ تادم تحریر دستیاب اطلاعات کے مطابق کشتی پر ڈرون حملہ کرکے امدادی قافلے کے ارکان پر ایسا چھڑکاؤ کیا گیا جس سے ان کی کھال کا رنگ تبدیل ہوگیا ، اس کے بعد اسرائیلی حکام نے کشتی پر قبضہ کرکے امدادی کارکنوں کو اغوا کرلیا ۔اس سے قبل صہیونی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اسرائیل کسی کو بھی غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑکر حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل کی اجازت نہیں دے گا۔ تاہم یہ مؤقف سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ امدادی کشتی پر جرمنی، فرانس، برازیل، ترکی، سویڈن، اسپین اور نیدرلینڈ کے عام شہری سوارتھے جن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں بلکہ صرف امدادی سامان تھا، امدادی کارکنوں میں شامل یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نے گزشتہ روز متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل امدادی کشتی کو جارحیت کا ہدف بناسکتا ہے لیکن کسی بھی متعلقہ ملک نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس طرح بقول ریما حسن صہیونی ریاست کو پیغام ملا کہ امدادی کشتی کے خلاف اسے کسی بھی اقدام کی آزادی حاصل ہے۔ اس تجاہل عارفانہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ امدادی قافلہ کشتی سمیت سفاک اسرائیلی حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ اسرائیل کو انسانیت کش اقدامات کی یہ کھلی چھوٹ دیے رہنا اس کی سرپرست قوتوں کی سنگین کوتاہی ہے اور اپنے اس طرزعمل سے وہ خود کو بھی اسرائیل کے جرائم میں شریک اور اپنے انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعووں کا فریب محض ہونا ثابت کررہی ہیں۔