2024-25ءوزیراعظم شہباز شریف حکومت کی اقتصادی اصلاحات کا پہلا سال تھا۔اس عرصے میںاٹھائے گئے اقدامات کی بدولت نہ صرف ملک دیوالیہ پن جیسی صورتحال سےآزاد ہوا، بلکہ سمندر پار پاکستانیوں کے توسط سے آنے والی ترسیلات زر میں اضافہ ،نئی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوئے اورمختلف ممالک کے ساتھ بعض نئے اقتصادی معاہدے ہوئےہیں۔ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم رہااور سب سے بڑھ کر کم وبیش 6سال سے مسلط شدید ترین مہنگائی کا جادو ٹوٹا ۔دوسری طرف یہ تشویشناک رپورٹ سامنے آئی ہےکہ زرعی اورصنعتی شعبے کی نشوونما اہداف سے کم رہی،جس کے مطابق مالی سال2024-25ءمیں معاشی شرح نمو 3.6فیصد ہدف کے مقابلے میں 2.68فیصد رہی۔اس میں زراعت کا حصہ 2فیصد ہدف کے برعکس 0.56فیصد رہا۔معیشت کا حجم گزشتہ برس کے 371.66کےمدمقابل 410.96ارب ڈالر رہا۔اہم فصلوں کی نشوونما 4.5فیصدہدف کے مقابلے میں منفی13.49فیصد ،اس کے برعکس دیگرکی 4.3فیصد ہدف کے مدمقابل 4.78فیصدرہی۔لائیو اسٹاک اور جنگلات میں بہتری اور ماہی گیری میں کمی کارجحان دیکھا گیا۔پیداواری شعبے کی گروتھ 1.34فیصد رہی جبکہ اس کا ہدف 4.4فیصد تھا۔بڑی صنعتوں کی نشوونما منفی 1.53فیصد رہی جبکہ ہدف 3.5 فیصد تھا، البتہ چھوٹی صنعتیں اپنے مقررہ ہدف 8.2فیصد کے مقابلے میں 8.81 فیصد گروتھ ظاہر کر رہی ہیں۔ہدف کے مقابلے میں کم شرح ظاہر کرنے والے دیگر شعبوں میں خدمات،ہول سیل اینڈ ریٹیل،ٹرانسپورٹ اسٹوریج اور کمیونی کیشن شامل ہیں۔بعض شعبوں میں حوصلہ افزا صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔زراعت وصنعت مقامی طور پرضروریات زندگی پوری کرنے کے ساتھ زرمبادلہ حاصل کرنےکیلئے انتہائی اہم ہیں،جن پرمناسب توجہ انتہائی ضروری ہے۔