10 ؍جون کو وفاقی بجٹ اور 9؍جون کو اکنامک سروے 2024-25ء پیش کیا گیا۔ بجٹ سے متعلقہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے فنانس، ریونیو، کامرس اور اکنامک افیئرز کے ممبر کی حیثیت سے گزشتہ ایک ماہ سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی سیکریٹری خزانہ، چیئرمین FBR اور دیگر اہم حکومتی عہدیداران کی طرف سے بجٹ پر بریفنگ دی جارہی تھی اور قومی اسمبلی میں ٹیکس قوانین میں تبدیلیوں کے کئی بلز پیش کئے گئے جن میں سے زیادہ تر بلوں میں ٹیکس دہندگان سے ریونیو وصولی کیلئے سخت ترین اقدامات تجویز کئے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ بلز پر ہم نے اعتراض اٹھا کر انہیں قائمہ کمیٹیوں کو بھجوایا، جن میں اپیل سے قبل ٹیکس دہندگان کے اکائونٹ سے جبراً رقوم نکالنا اور صنعتوں کے گیس سے بجلی پیدا کرنیوالے کیپٹو پاور پلانٹس کی نیشنل گرڈ پر منتقلی جیسے بلز شامل تھے۔ اسی دوران مجھے کراچی کے کباب کے نام سے مشہور ریسٹورنٹ کے مالک عمران شیخ کا فون آیا کہ انکے تمام بینک اکائونٹ بلاک کرکے FBR نے 8کروڑ روپے سے زائد رقم نکال لی ہے۔ اس حوالے سے عمران شیخ نے مجھے بتایا کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے انہیں کسی قسم کا نوٹس موصول نہیں ہوا۔ میں نے قائمہ کمیٹی فنانس کی میٹنگ میں چیئرمین FBR کی توجہ اس معاملے پر دلائی اور انکے اکائونٹس کھولنے کی درخواست کی۔
اکنامک سروے 2024-25ء میں حکومت نے کچھ اہداف حاصل کئے اور کئی اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ پاکستان کی GDPگروتھ 2.7فیصد رہی جبکہ ہدف 3.6فیصد تھا لیکن پاکستان کی آبادی میں 2.5فیصد اضافے کے مدنظر یہ گروتھ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ آئندہ سال گروتھ کا ہدف 4.2فیصد رکھا گیا ہے۔ اس سال پاکستانی معیشت کا حجم بڑھ کر 411ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 372ارب ڈالر تھا۔ فی کس آمدنی جو گزشتہ سال 1662ڈالر تھی، بڑھ کر 1824ڈالر ہوگئی ہے۔ بجٹ کا مالی خسارہ GDP کا 2.6فیصد رہا جبکہ پرائمری سرپلس 3 فیصد تھا۔ آنیوالے سال میں افراط زر کی شرح 4.6 فیصد رکھی گئی ہے جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.8 ارب ڈالر سرپلس رہا۔ گزشتہ سال یہ 1.34 ارب ڈالر خسارے میں تھا جسکا ایک بڑا کریڈٹ ترسیلات زر کو جاتا ہے جو 31 فیصد اضافے سے اس سال 37ارب ڈالر تک متوقع ہے جو ملکی ایکسپورٹس سے زیادہ ہیں۔FBR نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 26.3فیصد اضافی ریونیو حاصل کئے ہیں اور توقع ہے کہ وہ 12333ارب روپے کا نظرثانی ہدف حاصل کرلیں گے جبکہ 2023-24ء میں FBR ریونیو کا ہدف 9306 ارب روپے تھا اور 2025-26 ء کیلئے FBR نے 14100ارب روپے کا ہدف رکھا ہے۔ حکومت زراعت، مینوفیکچرنگ (صنعت) اور سروس سیکٹر کے اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) کی کارکردگی منفی 1.5فیصد رہی جبکہ SMEs گروتھ اضافے سے 8.8فیصد رہی جسکی وجہ سے مینوفیکچرنگ کی اوسطاً گروتھ 4.77فیصد رہی لیکن میرے نزدیک بینکوں کے شرح سود میں 22 فیصد سے 11فیصد کمی، صنعتی صارفین کے بجلی نرخوں میں 7.5روپے فی کلوواٹ کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث صنعتوں کی پیداواری لاگت گھٹنے سے LSM سے اچھی گروتھ متوقع تھی۔ سروس سیکٹر بھی ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ زراعت میں کاٹن کی پیداوار میں 30فیصد کمی کیساتھ گیہوں، گنا، چاول کی پیداوار میں بھی کمی آئی لیکن لائیو اسٹاک جو زراعت کے شعبے کا ایک ذیلی سیکٹر ہے، کی گروتھ متاثر کن رہی جس کی وجہ سے زراعت کی اوسطاً گروتھ 4.8فیصد پہنچ سکی۔ نجی شعبے کو بینکوں کے قرضے 681ارب ڈالر رہے۔ ملکی ایکسپورٹس میں 7فیصد جبکہ امپورٹس میں 11.7فیصد اضافہ ہوا۔ ملکی ایکسپورٹس میںIT سیکٹر میں 7فیصد اضافہ (3.1ارب ڈالر) اور چاول کی ایکسپورٹس میں اضافہ خوش آئند ہے۔ گردشی قرضے 2300ارب روپے کی سطح پر کھڑے ہیں اور وزیر خزانہ نے بینکوں سے قرضے لیکر انکی ادائیگی کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کا خسارہ اس بار بھی 800 ارب روپے رہا جو ناقابل برداشت ہے۔ R 2025-26 کا بجٹ 17570ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.6 فیصد کم ہے۔ مالی سال 2024-25ء میں حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگی 9800 ارب روپے تھی جو اس سال کم ہوکر 8500ارب روپے ہوگئی ہے جس سے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 1300ارب روپے کی کمی آئی ہے۔ مالی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے IMF کے دبائو پر حکومت نے ترقیاتی منصوبوں (PSDP) کیلئے 1000ارب روپے مختص بجٹ کو 20 فیصد کم کرکے 880ارب روپے کردیا ہے۔ خطے کے حالات دیکھتے ہوئے اس سال دفاعی بجٹ 18فیصد اضافے سے 2500ارب روپے رکھا گیا ہے۔ IMF مطالبے پر حکومت یکم جولائی 2025 سے پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی 78روپے سے بڑھاکر 100روپے کرنا چاہتی ہے جس سے حکومت کو 1311 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ اس سال IMF کو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں کمی اور نان فائلرز کے بینکوں، پیٹرول پمپوں وغیرہ میں کیش لین دین پر اضافی ٹیکس کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے باعث نان فائلرز کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگا۔