• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانوں کی خرید و فروخت ایک قدیم پیشہ ہے اور دَورِ جدید میں بھی یہ غیر انسانی سرگرمی مختلف انداز سے جاری ہے۔ غلامی کا آغاز دُنیا کی ابتدائی تہذیبوں سے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ مختلف صُورتوں میں برقرار رہا۔

گرچہ جدید دَور میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انسانی خریدوفروخت کا کاروبار کسی نہ کسی صُورت جاری ہے۔ زمانۂ قدیم میں غلاموں کو جنگی قیدیوں، قرض ادا نہ کر پانے والے افراد اور مجرموں میں سے چُناجاتا تھا اور قدیم مصر، بابل و نینوا، یونان اور روم میں غلاموں کی خرید و فروخت کا ایک باقاعدہ نظام موجود تھا۔

قدیم مصر میں غلاموں سے زیادہ تر مزارعین اور مزدوروں کے علاوہ گھریلو ملازمین کے طور پر کام لیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اہرام، مقابر اور دیگر عظیم الشّان عمارتوں کی تعمیر میں غلاموں نےاہم کردارادا کیا۔ اسی طرح بابل و نینوا کی تہذیب میں بھی غلاموں کو معاشی سرگرمیوں اور گھریلو کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

مذکورہ تہذیب میں غلامی اس قدر عام تھی کہ انسانوں کو عام اشیاء کی مانند خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ اِسی طرح یونان میں بھی غلامی کو سماج کا ایک لازمی حصّہ سمجھا جاتا اور تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ متعدد یونانی فلاسفہ نےانسانوں کی خرید و فروخت کو ایک فطری عمل قراردیا تھا۔ 

یونانی معاشرے میں بھی غلاموں کو گھریلو ملازمین اور مزارعین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مصر اور بابل و نینوا کی نسبت روم میں غلامی کا نظام زیادہ مستحکم اور وسیع تھا۔ فوجی فتوحات کے بعد بڑی تعداد میں غلاموں کو رومی سلطنت میں لایا جاتا اور اُن سے کھیتی باڑی سمیت دیگر سخت کام لینے کے علاوہ غیر انسانی سلوک بھی کیاجاتا۔ گرچہ کچھ غلاموں کو خوش نصیبی سے آزادی مل جاتی، لیکن زیادہ تر زندگی بَھر ہی سختیوں کا سامنا کرتے رہتے۔

دُنیا کی دیگر تہذیبوں کے برعکس اسلام نے غلاموں کے ساتھ اچّھے سلوک پر زور دیا اور انہیں آزاد کرنے کونیکی قرار دیا۔ قرآنِ پاک میں غلاموں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اُن کی آزادی کو ایک عظیم عمل قرار دیا گیاہے۔ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے غلاموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تعلیم دی اور کئی غلاموں کو آزاد بھی کیا۔ یہی وجہ ہےکہ اسلامی ریاستوں میں غلاموں کو نہ صرف تعلیم فراہم کی جاتی تھی بلکہ وہ اعلیٰ عُہدوں تک بھی پہنچ سکتے تھے۔

مثال کے طور پر ایّوبی سلطنت اور دوسری سلطنتوں میں غلاموں نے بادشاہت کے اعلیٰ منصب تک رسائی حاصل کی۔ تاہم، پندرہویں سے انیسویں صدی کے دوران یورپ کی نوآبادیاتی قوّتوں نے غلامی کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا۔ اس ضمن میں افریقی غلاموں کی تجارت اُس دَور کی خوف ناک ترین مثال ہے، جس میں لاکھوں افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑ کر یورپ، امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں لے جایا گیا، جہاں اُنہیں شدید مظالم کا سامنا اور انتہائی سخت حالات میں کام کرنا پڑا۔ 

انیسویں صدی میں ابراہام لنکن کی قیادت میں امریکا میں غلامی کے خلاف جنگ ہوئی، جس کے نتیجےمیں وہاں 1865ء میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ بعدازاں، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے بھی رفتہ رفتہ غلامی کے خلاف قوانین بنائے، لیکن یہ عمل کئی دہائیوں پر محیط تھا۔

گرچہ آج دُنیا کے زیادہ ترممالک میں غلامی ایک غیرقانونی فعل ہے، لیکن یہ مختلف صُورتوں میں اب بھی موجود ہے۔ جبری مشقّت، انسانی اسمگلنگ، کم اُجرت پر کام کرنے والے مزدور اور چائلڈ لیبر وغیرہ جدید دَور میں غلامی ہی کی مثالیں ہیں۔

واضح رہے کہ آج بھی جنوبی ایشیا، افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں لاکھوں افراد جبری مشقّت کا شکار ہیں، جب کہ فیکٹریوں، کھیتوں اور گھروں میں ملازم اور مزدور ایسے حالات میں کام کرتے ہیں کہ جودَورِغلامی ہی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ 

گرچہ غلامی کی ان نئی اشکال کے خلاف اقوامِ متّحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں کام کررہی ہیں، لیکن اس کے مکمل خاتمے کے لیے مزید عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جدید معاشروں کو سماجی انصاف اور مساوات کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ ہر فرد کو آزادی اور عزّت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔