• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دور تھا کہ ہر شخص اپنے بچوں اور بچیوں کو ڈاکٹر بنانے کیلئے بے تاب رہتا تھا، بچوں کو سائنس کے مضامین لینےکیلئے زور دیا جاتے تھا اور میڈیکل کالج میں داخلہ ہونے پر سارے احباب و رشتہ دار مبارک باد دیا کرتے تھے۔ اب یہ عام رحجان بدل گیا اور ڈاکٹر کی بجائے لوگ اپنے بچوں کو انجینئر بنانے لگے اور خاص کر اب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کا نیا اور وسیع میدان سامنے ہے اور مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کی طرف لوگوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن پاکستان میں اس شعبے کے ماہرین کی کمی ہے بلکہ خال خال ہی کوئی اے آئی کا ماہر دستیاب ہو۔ بیرونِ ممالک سے انتہائی بڑے مشاہروں پر ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔

میڈیکل کی تعلیم بھی اب ایم بی بی ایس تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو اسپیشلائزیشن پر بھی کروڑوں خرچ ہو جاتے ہیں اور اب تو روبوٹ علاج معالجے میں استعمال کیے جارہے ہیں ۔ ہمارے ہاں میڈیکل کی تعلیم انتہائی مہنگی ہوچکی ہے گزشتہ دنوں ایک سنگل کالم خبر چھپی کہ سرکاری شعبے میں چلنے والوں سمیت کئی پرائیویٹ میڈیکل کالج بھی میڈیکل طلبا کی فیس اٹھارہ لاکھ روپے تک مقرر کرنے کے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہیں، پی ایم ڈی سی نے طلبا کیلئے میڈیکل فیس اٹھارہ لاکھ روپے تک مقرر کرنے کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کرانے کیلئے دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے لیکن اسلام آباد ہو یا راولپنڈی، لاہور ہو یا کراچی پشاور ہو یا کوئی دوسرا شہر سب سرکاری و نجی میڈیکل کالج کے حکام نے اتفاق رائے سے پی ایم ڈی سی کے اس شور و غل پر قطعاً توجہ نہیں دینی کیونکہ جب پی ایم ڈی سی ہی عمل درآمد نہیں کرانا چاہتا تو اور کون پوچھے گا۔ اس سال2025ءکیلئے میرٹ لسٹ کے مطابق سرکاری کالجوں کا اوسط میرٹ مجموعی طور پر چورانوے سے چھیانوے فیصد پر برقرار رہا جس میں پری میڈیکل اور انٹری ٹیسٹ کے نمبروں سے تناسب بنایا گیا۔نجی میڈیکل کالج کا میرٹ 72فیصد تک رہا۔جن سینکڑوں طلبہ کو سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ پر داخلہ نہ مل سکا انہوں نے نجی کالج میں لاکھوں روپے فیس ادا کرکے داخلے حاصل کیے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں کل بتیس پرائیوٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالج ہیں جبکہ سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالج کی تعداد صوبے میں صرف اٹھارہ ہے۔

طلبہ کے والدین کے مطابق تمام نجی کالجوں نے الگ الگ فیسیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن میں پچیس لاکھ سے پینتیس لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ سرکاری کالج کی فیس صرف اٹھارہ ہزار روپے سالانہ مقرر کی گئی ہے۔ دیگرشہروں سے داخلہ پانے والوں کیلئے ہاسٹل کے اقامتی چارجز چالیس سے پچاس ہزار ماہانہ ہیں۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ گزشتہ سال دسمبر میں پرائیویٹ میڈیکل کالج کی بھاری فیسوں کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا تھا اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی ذیلی کمیٹی نے فیسوں میں اضافے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کے کردار پر بھی سوال اٹھائے تھے اور ذیلی کمیٹی کی کنوینر پلوشہ خان نے کہا تھا کہ قانون بڑا واضح ہے کہ پی ایم ڈی سی فیسوں کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج بچوں کو لوٹ رہے ہیں، پرائیویٹ میڈیکل کالج کی سالانہ فیس اٹھائیس لاکھ تک پہنچ گئی اور پی ایم ڈی سی نے مافیا کو جنم دیا ہے۔

سینیٹر پلوشہ کا کہنا درست تھا کہ بچوں سے اتنی بھاری فیس لینا ظلم ہے، پرائیویٹ میڈیکل کالج مافیا بن چکے، پی ایم ڈی سی نے اضافی فیسیں واپس کیوں نہ کرائیں؟ رجسٹرار پی ایم ڈی سی نے بتایا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج کی کوئی کیٹگرائزیشن نہیں۔ اسپیشل سیکرٹری صحت نے محض اعتراف کیا کہ میڈیکل کالج کی وصول کردہ فیس بہت زیادہ ہے، رجسٹرار پی ایم ڈی سی نے بھی اظہار بے بسی کرتے تسلیم کیا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج نے از خود فیس بڑھائیں تاہم وہ سرکاری میڈیکل کالج کی فیسوں کا معاملہ گول کر گئے۔

اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد اصلاحاتی کمیٹی نے طے کیا کہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس پروگراموں کیلئے اٹھارہ لاکھ روپے سالانہ ٹیوشن فیس مناسب ہوگی۔ فیس کو کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر سالانہ ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ پی ایم ڈی سی نے فیس بڑھانے اور من مانی کرنے کا چور دروازہ اس طرح کھول دیا کہ وہ ادارے جو زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنا چاہتے ہیں انہیں ہر سال زیادہ سے زیادہ پچیس لاکھ روپے تک کیلئے تفصیلی مالی جواز پیش کرنے کی ضرورت ہو گی، جس میں ملتے جلتے اداروں کے ساتھ موازنہ، پیش کردہ خدمات اور تعلیمی اضافہ شامل ہیں۔ دو ماہ قبل پچیس رکنی حکومتی کمیٹی نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی زیادہ سے زیادہ فیس تمام واجبات سمیت برائے پانچ سال اٹھارہ لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ میڈیکل کالجوں کی اکثریت اس کے نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد نہیں کررہی اور بدستور پہلے سے مقرر کردہ فیس اوسطاً پینتیس تا چالیس لاکھ روپے فی طالب علم وصول کی جارہی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ کسی اتھارٹی کو جواب دہ نہیں ہے، اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ پاکستان سے باہر ہمارے ڈاکٹر زکی بھی اور تعلیمی اداروں کی ڈگریوں کی بھی کوئی ساکھ نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ اپنا علاج بیرون ملک سے کرواتی ہے بلکہ بعض میڈیکل کالج کے سرکردگان بھی اپنا علاج و معالجہ امریکہ و لندن سے ہی کراتے ہیں اور عزم میڈیکل یونیورسٹیز بنانے کا رکھتے ہیں؟

تازہ ترین