• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں کمی کی کوششیں اگرچہ مسلسل جاری ہیں مگر صورتحال کی گمبھیرتا کم ہوتی نظر نہیں آتی جبکہ تشویش کے نئے پہلوئوں کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ بعض مبصرین اس رائے کے حامل ہیں کہ اسرائیل ایران کیساتھ جنگ میں امریکہ کی شمولیت کا خواہشمند ہے ، بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ تل ابیب کے ایران پر حملے کااصل ہدف قیادت میں تبدیلی کا برسوں پرانا منصوبہ بروئے کار لانا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو خود بھی ایک سے زائد بار اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ موقف واضح ہے کہ وہ اب کرۂ ارض پر کوئی نیا ایٹمی ملک نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس منظر نامے میں منگل کی سہ پہر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے آنیوالے ایران سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے مطالبے پر مبنی بیان نے تشویش انگیزی نمایاں کر دی ۔ جبکہ روس، فرانس سمیت کئی ممالک کی امن کوششوں میں کمی کی کوئی اطلاعات نہیں۔ منگل 17جون 2025ء ایران اور اسرائیل کے درمیان خطرناک ہتھیاروں کے ایک دوسرے پر استعمال کا پانچواں دن تھا۔ اُسی روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ اپنی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایران سے کہا کہ وہ غیر مشروط ہتھیار ڈال دے ان کی مزید گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آسان ہدف ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں، فی الحال ایرانی لیڈر کو قتل کرنے نہیں جارہے ہیں۔ ایرانی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے،ہم صرف جنگ بندی نہیں ایران تنازع کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں، نہیں چاہتے کہ ایرانی میزائل شہریوں یا امریکی فوجیوں کو نشانہ بنائیں۔اسی اثنا میں ایران کے اسرائیلی ملٹری انٹلیجنس ڈائریکٹریٹ، موساد کے آپریشن سینٹر اور اہم تحقیقی مرکز پر حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔ ایران کے نئے تعینات کردہ اعلیٰ فوجی کمانڈر میجر جنرل علی شادمانی کو شہید کرنے کا دعویٰ بھی منگل ہی روز اسرائیل کی طرف سے سامنے آیا ۔ اسرائیلی طیاروں نے تہران کے قلب میں واقع ایک فعال کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا جسکے نتیجے میں چیف آف دی اسٹاف میجر جنرل علی شادمانی شہید ہوگئے جو سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی مشیر سمجھے جاتے تھے۔ اُدھر اردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ دوم نے فرانس میں یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جس تشویش کا اظہار کیا وہ متقاضی ہے اس بات کی کہ عالمی برادری اس پر سنجیدہ توجہ دے۔ انکا کہنا ہے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا یہ جنگ کس انتہا پر جاکر ختم ہوگی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا عدم استحکام متعدد ملکوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک مشترکہ اعلامیے کے بموجب پاکستان، ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت اہم اسٹیک ہولڈر 20مسلم ممالک نے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے خطے میں نیو کلیئر فری زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اعلامیہ میں کشیدگی کے خاتمہ کیلئے جامع سیز فائرکی ضرورت اجاگر کی گئی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کریں۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے تاحال نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا باقاعدہ اعلان کیا ہے نہ این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں۔ اعلامیے میں فریقینِ جنگ کے درمیان فوری مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ سفارتکاری اور مذاکرات ہی امن کی طرف بڑھنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے عالم میں کہ ایک عالمی جنگ کے خطرات کرہ ارض پر چھائے محسوس ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ کو جنگ بندی کے اقدامات پر فوری توجہ دینی چاہئے۔ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی تٓنظیموں کو بھی اس باب میں متحرک نظر آنا چاہئے۔جبکہ مسلم ممالک میں داخلی اتحاد و اتفاق کی کیفیت مستحکم تر محسوس ہونی چاہئے۔

تازہ ترین