وزیر اعظم شہباز شریف نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ریکوڈک کو 2028 ءتک ملک کے ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کیا جائے۔ یہ پیش رفت منگل کو اسلام آباد میں پاکستان ریلوے کی اپ گریڈیشن اور ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے جوڑنے سے متعلق ایک اعلی سطحی اجلاس کے دوران سامنے آئی۔ بلوچستان میں واقع ریکوڈک دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے غیر ترقیاتی ذخائر میں سے ایک ہے۔ یہ منصوبہ بیرک گولڈ تیار کر رہا ہے اور اس سے پیداوار 2028ءمیں شروع ہونے کی توقع ہے۔ تخمینے کے مطابق یہ کان اپنی 37 سالہ متوقع مدت کے دوران 74 ارب ڈالر تک فری کیش فلو پیدا کر سکتی ہے۔ اجلاس میں پاکستان ریلوے کی ترقی بالخصوص ایم ایل ون اور ایم ایل تھری کی اپ گریڈیشن اور مستقبل میں مال برداری وسفری ضروریات کے تناظر میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم نے ایک بین الوزارتی کمیٹی بنانے کی ہدایت بھی دی جو ریلوے کی ترقی اور ریکوڈک تک توسیع کیلئے درکار مالی وسائل سے متعلق ٹھوس تجاویز پیش کریگی، وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا تھا کہ پاکستان ریلوے ملکی معیشت اور مواصلاتی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے جوڑنے سے بلوچستان کی معدنیات و کان کنی کے شعبے کی ترقی کو فروغ ملے گا اور مقامی آبادی کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ پاکستان ریلوے نقل و حمل کا ایک سستا، تیز اور ماحول دوست ذریعہ ہے۔1960ءکے اوائل میں تجارتی نقل و حمل کا 75فیصد حصہ ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن بعد میں حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ روہڑی جیکب آباد، کوئٹہ سے تفتان تک ایم ایل تھری ٹریک کا 80فیصد حصہ اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ ایم ایل ون (کراچی تا پشاور) منصوبہ کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 9ارب 80کروڑ ڈالر تھا بعد میں چین نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ 6ارب 60کروڑ ڈالر کی نظرثانی شدہ لاگت پر اتفاق کر لیا تھا تاہم اس پر ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔