• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ کے بعد ایران پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے آگے اس وقت پوری دنیا بے بس ہے ۔ ظلم و بربریت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن اسرائیلی سنگدلی کی کوئی حد نہیں۔ اس نے گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سال کے دوران جس شقی القلبی اور غیر انسانی روّیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسکی کوئی مثال دورِ حاضر کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ معصوم بچوں ، عورتوں اور بزرگوں کو یوں چن چن کر مارا جا رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں فلسطینی مندوب اپنے لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ لیکن آج کی مہذب دنیا کی حکومتوں کا روّیہ بھی بے رحمانہ خاموشی اور اذّیت ناک لفاظی سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن ان ممالک کے عوام نے فلسطینی عوام کے حق اور اسرائیلی مظالم کے خلاف جس طرح اپنے اپنے ممالک کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں وہ نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ اس حقیقت کی بھی غمازی کرتے ہیں کہ آج پوری دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے اور جنگ ِ عظیم دوم کے دوران یہودی نسل کشی جسے ہولو کاسٹ بھی کہا جاتا ہے کا جو پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔ جس کے تحت یہودیوں کو نہ صرف مظلوم سمجھا جاتا تھا بلکہ کفارے کے طور پر انہیں اپنی ایک الگ ریاست بنانے میں پوری معاونت کی گئی۔ لیکن 48میں کفارے کے طور پر فلسطین کی سرزمین پر بنائی گئی غاصبانہ اسرائیلی ریاست نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک ظلم کا کفارہ دوسرے ظلم کے ذریعے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ وہ ایک بڑے ظلم کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ جیسا کہ اسرائیل کی شکل میں ہوا۔ کیونکہ اس طرح ناجائز طور پر وجود پانے والی ریاست اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل ناجائز ذرائع استعمال کرتی رہتی ہے۔ اور بالآخر اس کا وجود اس کے اپنے اور باقی پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن جاتا ہے۔ دنیا میں اسرائیل اور کشمیر ظلم کے وہ مقام بن چکے ہیں۔ جن کی وجہ سے گزشتہ 80سالوں سے کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور جن کے نیوکلیئر پس منظر کے حوالے سے یہ پیشین گوئی کی جاتی رہی ہے کہ یہی وہ دو حسّاس مقامات ہیں جہاں سے تیسری ایٹمی عالمی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو انسانی وجود کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودی نسل کشی کی مذمت کی گئی۔ لیکن آج جس طرح اسرائیلی کھلے عام فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں اور اسے سیلف ڈیفنس کا نام دے کر امریکی اور یورپی حکومتیں اس کا دفاع کر رہی ہیں۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو آج کا کوئی ظالم یا ظالم کا ساتھی مستقبل کے ’’ کفارے‘‘ کا شکار ہونے سے نہ بچ سکے گا۔ اس المیے کی ایک اور بڑی وجہ ’’ مذہب ‘‘ کے نام پر کسی ریاست کی تشکیل ہے جہاں جائز اور ناجائز کی طے شدہ حدود اپنی خواہشات اور عقیدے کی بنا پر از سر ِ نو طے کی جاتی ہیں۔ یہ غیر حقیقی مفروضہ ایک اصول یا فارمولے کی تشکیل میں نہ صرف مذہبی ریاست کے قیام کے لیے ہی استعمال ہو سکتا ہے کہ جس جگہ پانچ ہزار سال پہلے جو ریاست قائم تھی اسے از سرِ نو قائم کیا جائے اور وہ بھی موجودہ ریاست کے عوام کی لاشوں پر۔ اب آئیے ایران ، فلسطین اور کشمیر کے بارے میں پچاس سے زیادہ ممالک میں بسنے والے 2ارب سے زائد مسلمانوں کے ردّ ِ عمل کے بارے میں جو صرف ایک کروڑ کے قریب آبادی والے ملک اسرائیل کی دہشت سے سہمے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے پورا عالم ِ اسلام عالم نزع کی حالت میں ہے۔ مسلمانوں کی اس بے حسی کے بارے میں میری نظم ’’ یہ عالم ِ اسلام ہے یا عالمِ نزاع‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

اے ارضِ فلسطین اے غزہ کے آسمان

اے آگ و خوں میں ڈوبے ہوئے شہرِ بے امان

یہ طے ہے اب کے ظلم ان حدوں کو چُھو گیا

جب ظلم کے نصیب میں مٹ جانا ہے لکھّا

لیکن ترے غم خواروں کے کیا کیا بھرم کھلے

کیسے فقیہہِ شہر اور شیخ ِ حرم کھلے

یہ عالم ِ اسلام ہے یا عالمِ نزاع

جسے بدن سے ہو رہی ہو روح الوداع

دل تیرے اِن کی گریہ زاری پر نہیں پلے

تیری معصوم لاشوں پر بھی ہونٹ تھے سلے

القاعدہ کہاں ہے ، کہاں ہیں وہ طالبان

جن کا جہاد پی رہا ہے خونِ مسلمان

تیرے لیے کمان سے نکلا نہیں کیوں تیر

جاگے نہیں کیوں تیرے لیے سب یہ بے ضمیر

باہر سے دشمن کا راگ ہیں الاپتے

اندر سے سامراج سے ہیں سب کے رابطے

تازہ ترین