دنیا میں جب بھی اجتماعی ترقی، سماجی بہتری اور عوامی فلاح و بہبود کی بات کی جاتی ہے، تو امدادِ باہمی (Cooperation) کا نظریہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے کو ’’امدادِ باہمی کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے رواں سال 5جولائی کو یہ عالمی دن منایا جائے گا۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے 2025کو’’امدادِ باہمی کا بین الاقوامی سال‘‘ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ نے جو تھیم مقرر کیا ہے، وہ ہے ’’Cooperatives Build a Better World‘‘ یعنی ’’امدادِ باہمی کے ادارے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کرتے ہیں‘‘۔
امداد باہمی کا عالمی دن ہمیں باہمی تعاون کے اصولوں کو اجاگر کرنے اور ان کے ذریعے ایک بہتر اور منصفانہ معاشرے کی تعمیر کے عزم کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نیز، یہ دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں امدادِ باہمی کے نظریے کو فروغ دینا، اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کے عملی طریقے اپنانا اور اجتماعی ترقی کے ایسے نمونوں کو عام کرنا ہے کہ جو خودانحصاری، شفافیت اور بھلائی پر مبنی ہوں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاو ن کرو۔‘‘ قرآن کریم میں یہ واضح ہدایات ہیں کہ ہم خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں، ایک دوسرے کے کام آئیں، اپنی زندگی کو امدادِ باہمی کے سنہری اصولوں کے مطابق ڈھالیں اور ذاتی مفاد کی بجائے اجتماعی فائدے کو ترجیح دیں، جب کہ امدادِ باہمی سے مراد وہ عمل ہے کہ جس میں افراد یا ادارے رضاکارانہ طور پر باہمی تعاون اور اشتراک سے ایسے معاشی، سماجی یا ثقافتی منصوبے شروع کرتے ہیں کہ جن کا مقصد تمام شرکا کی فلاح ہو۔
یہ ادارے یا تنظیمیں ’’Cooperatives‘‘ کہلاتی ہیں، جو نہ صرف کاروباری سطح پر کام کرتی ہیں بلکہ تعلیم، صحت، خوراک، رہایش، نوجوانوں اور خواتین کی فلاح و بہبود، ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبہ جات میں بھی مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائی، تو پتا چلتا ہے کہ دُنیا کے جس خطے میں بھی مسلمانوں کا غلبہ رہا ، وہاں دین اسلام کی بدولت امداد باہمی کا تصور کا پروان چڑھا۔ برعظیم پاک و ہند میں بھی یہ خُوب صُورت روایت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں زرعی سوسائٹیز، کمیونٹیز اور مختلف انجمنوں کی صُورت باہمی تعاون کے ادارے قائم ہیں۔
پاکستان میں امدادِ باہمی کے ادارے ’’سوسائٹیز ایکٹ 1925‘‘ اور ’’کوآپریٹیو سوسائٹیز ایکٹ 1925‘‘ کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں اور ہر صوبے میں رجسٹرار کوآپریٹیو سوسائٹیز کا ادارہ موجود ہے، جو ان تنظیموں کی نگرانی بھی کرتا ہے۔
امداد باہمی کے اس نظام کے تحت سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں چھوٹے کسانوں کے لیے اجتماعی طور پر بیج، کھاد اور مشینری کی خریداری ہوتی ہے، جب کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں دست کاری، سلائی کڑھائی اور دیگر مہارتوں کے لیے امدادی گروپس تشکیل دیے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، بینکنگ کے شعبے میں بھی امدادِ باہمی کے ذریعے معاونت کی جاتی ہے او رمخصوص کمیونٹیز کی مدد کے لیے خصوصی بینکس قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امداد باہمی کے اداروں کی موجودگی کے باوجود ہمارے یہاں تعمیرو ترقی میں کیا امر مانع ہے؟
دراصل، ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوانی ہے، جب کہ دیگر عوامل میں پیشہ ورانہ سرپرستی، جدید تعلیم و تربیت اور بین الاقوامی سطح پر روابط کا فقدان شامل ہے۔ گرچہ یہاں امدادِ باہمی کا نظام موجود ہے، لیکن اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر ہم عالمی سطح پر امدادِ باہمی کے عمل کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ جرمنی، سویڈن اور ناروے میں کوآپریٹیو ماڈلز انتہائی فعال ہیں، جہاں رہائشی سوسائٹیز، کریڈٹ یونینز اور فوڈ کوآپریٹیوز شہریوں کو معیاری زندگی گزارنے کے لیے مختلف سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔
اٹلی میں ’’ایمیلیا رومانا‘‘ نامی علاقہ امدادِ باہمی کا عالمی ماڈل مانا جاتا ہے، جہاں ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی کوآپریٹیو کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں، کینیڈا اور امریکا میں کریڈٹ یونینز لاکھوں افراد کو سود سے پاک یا بہت کم شرح سود پر قرض فراہم کرتی ہیں۔ امریکا میں ’’National Cooperative Business Association‘‘ کوآپریٹیوز کی نمائندہ تنظیم ہے، جب کہ کینیا، یوگنڈا اور گھانا میں زرعی کوآپریٹیوز کسانوں کو مارکیٹ تک رسائی اور قرض کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ افریقا میں امدادِ باہمی کا تصور غربت کے خاتمے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح جاپان میں ’’جاپان ایگری کلچر کوآپریٹیو‘‘ (JA) مُلکی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے، جب کہ پڑوسی مُلک بھارت میں ’’امول‘‘ (Amul) دودھ کی ایک اہم کوآپریٹیو تنظیم ہے، جس نے دیہی خواتین کو خود کفیل بنایا ہے۔ چین میں حکومت کوآپریٹیو سوسائٹیز کو دیہی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے، جب کہ برازیل اور ارجنٹینا میں زرعی کوآپریٹیوز ملکی برآمدات کا اہم ذریعہ ہیں۔
اسی طرح اگر ہم انفرادی طور پر باہمی تعاون کی کاوشوں کا جائزہ لیں، تو پاکستان میں ڈاکٹر امجد ثاقب امدادِ باہمی اور فلاحی خدمات کا ایک روشن باب ہیں۔ انہوں نے ’’اخوت‘‘ کے نام سے سود سے پاک ایک منفرد مائکرو فنانس ماڈل متعارف کروایا، جو دُنیا بھر میں تعاون اور خود انحصاری کا ایک کام یاب ماڈل ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کی قیادت میں اخوت نے لاکھوں افراد کو چھوٹے قرضے، تعلیمی وظائف، رہایش اور صحت کی سہولتیں فراہم کیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا ماننا ہے کہ غربت کے خاتمے کا بہترین طریقہ امداد پر انحصار کی بجائے لوگوں کو باوقار روزگار کے قابل بنانا ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور نوبل پرائز کے لیے نام زدگی جیسے اعزازات دیے جاچکے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر نیت خالص اور ارادہ پختہ ہو، تو امدادِ باہمی کے اصولوں کو بنیاد بنا کر معاشروں کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
اسی طرح بہت سی دیگر نام ور شخصیات نے بھی امدادِ باہمی کے نظریے پر عمل کر کے معاشرے کے پس ماندہ طبقات کا معیار زندگی بلند کیا۔ مثال کے طور پر بنگلا دیش کے موجودہ چیف آرگنائزر، محمد یونس، جو ایک ممتاز ماہر معاشیات اور سماجی کارکن بھی ہیں، امدادِ باہمی کے عالمی سفیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ’’گرامین بینک‘‘ کی بنیاد رکھی، جو غریبوں خصوصاً دیہی خواتین کو خود کفیل بنانے کے لیے سود سے پاک قرضے فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر یونس کی ان خدمات کے اعتراف ہی میں انہیں 2006 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ آج دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہیوں کے علاوہ غربت، بے روزگاری اور طبقاتی تفاوت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان حالات میں امدادِ باہمی کے ماڈلز ہی ایک دیرپا حل فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسی نام ور شخصیات نوجوانوں کو کوآپریٹو تحاریک میں شامل کر کے قیادت کی نئی جہتیں پیدا کریں۔
نیز، حکومتیں ٹیکس میں کمی، آسان رجسٹریشن اور تربیتی پروگرامز کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے گلوبل نیٹ ورکس بنائے جائیں اور دنیا کے تمام افراد، ادارے، حکومتیں اور تنظیمیں ذاتی مفاد سے نکل کر اجتماعی بھلائی کے لیے قدم بڑھائیں۔ اس عالمی یوم کی مناسبت سے ہمیں بہ طور خاص یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’اگر ہم تیز چلنا چاہتے ہیں، تو تنہا چلیں، لیکن اگر ہم دُور تک جانا چاہتے ہیں، تو ایک ساتھ چلیں۔‘‘تو آئیے، امدادِ باہمی کا تصور اپنا کر ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھیں کہ جو پائے دار، منصفانہ اور انسانی قدروں سے مزین ہو۔