قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا معاملہ گزشتہ سال فروری میں عام انتخابات کے بعد سامنے آیا تھا۔ اس کی وجہ مختصراً یہ تھی کہ تحریک انصاف میں قواعد وضوابط کے مطابق بروقت انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے گئے تھے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے مسلسل انتباہات کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا تھا۔اس کوتاہی کا نتیجہ انتخابات میں پارٹی کو ایک انتخابی نشان الاٹ نہ کیے جانے کی شکل میں برآمد ہوا چنانچہ اس کے نمائندوں نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے مختلف انتخابی نشانات پر الیکشن میں حصہ لیا اور اسمبلیوں میں پہنچ جانے کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی۔اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے مطابق مخصوص نشستیں الاٹ کیے جانے کے حوالے سے یہ آئینی اور قانونی سوالات اٹھے کہ کیا تحریک انصاف سے وابستہ کامیاب آزاد امیدواروں کی بنیاد پر مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو مل سکتی ہیں یا نہیں۔الیکشن کمیشن کے بعد یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں تک پہنچا۔پشاور ہائی کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ سنی اتحاد مخصوص نشستوںکی حقدار نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے گزشتہ جولائی میں ان نشستوں کو اس جماعت کا حق قرار دیا۔ اسی دوران پارلیمنٹ میںچھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی عمل میں آئی جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں بھی دائر ہوئیں اور متعدد سماعتوں کے بعد گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پانچ کے مقابلے میںسات کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں نئی پارٹی پوزیشن بنے گی، 336 رکنی ایوان میں حکمران اتحاد کے پاس اس وقت 214 نشستیں ہیں، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) 110، پی پی پی 70، ایم کیو ایم 22، پاکستان مسلم لیگ (ق) 5،استحکام پارٹی 4، مسلم لیگ ضیاء ایک، بلوچستان عوامی پارٹی ایک، نیشنل پارٹی ایک شامل ہیں، یہ تعداد 214 بنتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں22 مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو ملیں گی اوراس کی کل نشستیں236 ہو جائیں گی جبکہ دو تہائی کی اکثریت کیلئے 224نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بھی تحریک انصاف کی پوزیشن بری طرح متاثر ہوگی اور اس کی 58 نشستوں کے مقابلے میں اپوزیشن ارکان کی مجموعی تعداد 27سے بڑھ کر 52 ہوجائے گی۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے وفاق میں موجودہ حکومتی اتحاد یقینا بہت مستحکم ہوگیا ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ قومی اتحاد و یکجہتی کی خاطر زیادہ ذمے داری سے کام لے اور دوتہائی اکثریت کے بل پر من مانی کا رویہ اختیار کرنے سے مکمل اجتناب کرے جبکہ تحریک انصاف کو بھی یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اسے جس صورت حال کا سامنا ہے، اس میں اُس کی اپنی پے در پے غلطیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عدالتی فیصلے کو آئین کی غلط تشریح قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عوامی سطح پر اور پارلیمان میں احتجاج کا اعلان کیا ہے جو بلاشبہ ان کاحق ہے جبکہ ملک کے اندر اور باہر ماہرین آئین و قانون کے تجزیے بھی اس فیصلے کے حسن و قبح کو واضح کریں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے فیصلے کے خلاف احتجاج جسے اب بدلا نہیں جاسکتا لاحاصل رہے گا۔لہٰذا بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف ذمے دار اپوزیشن کی حیثیت سے حکومتی پالیسیوں پر دیانت دارانہ تنقید اور بہتر تجاویز کے ذریعے تعمیری سیاست کا راستہ اپنائے ، کے پی میں عوامی فلاح و بہبود کے مؤثر اقدامات عمل میں لائے اور آئندہ عام انتخابات میں خود کو ایک بہتر متبادل قومی قیادت کی حیثیت سے پیش کرنے پر توجہ دے کہ ملک میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کا یہی واحد راستہ ہے۔