• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

’’عجیب بات ہے۔‘‘’’ہاں، مگر اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے جو مردے کفن میں دفنائے گئے تھے وہ ان سے زیادہ پریشان ہیں۔‘‘’’وہ کیسے؟‘‘’’وہ ایسے کہ الیکشن کے دوران سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے کارندوں کے ذریعے ان کے کفن بھی اُتار کر لے گئے اور اس کے بینر بنا لیے۔ اب یہ بیچارے ننگے پڑے ہیں۔ خود میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے میں یہ کفن اپنے ساتھی سے ادھار مانگ کر لایا ہوں۔ اس نے دے تو دیا مگر درخواست کی کہ یار ذرا جلدی آ جانا کہ اگر اس دوران فرشتے آ گئے تو میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘’’یہ تو آپ مجھے بہت عجیب و غریب باتیں بتا رہے ہیں۔‘‘ میں نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔’’صاحب! یہ تو کچھ بھی نہیں میں آپ کو ایک اور عجیب بات بتاتا ہوں۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘’’اِن دنوں کچھ مردے ایسے بھی آئے ہیں جن کے لواحقین نے کفن کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر بچے کھچے بینر اُتار کر اس کے کفن بنائے۔ چنانچہ بہت سے بینروں پر بڑے بڑے وعدے لکھے ہوئے ہیں۔‘‘’’واقعی!‘‘’’تو کیا میں آپ سے جھوٹ کہوں گا؟ اور ہاں ان مردوں کی وجہ سے قبرستان کے سکون میں خلل بھی بہت پڑا ہے۔‘‘’’وہ کیوں؟‘‘’’یہ بے وقوف الیکشن گزرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے اُمیدوار کے حق میں ’’آوے ای آوے‘‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔‘‘’’اس وقت آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘’’میں صرف آمین کہتا ہوں۔‘‘’’غمگین اندوہ پوری نے کھانا ختم کر لیا تھا، اب وہ غٹاغٹ پانی پی رہا تھا۔ میں نے جیب میں سے بٹوا نکالا اور پانچ ہزار روپے کا نوٹ بیرے کو دیا کہ باقی پیسے واپس لے آؤ۔‘‘’’ایک ڈبی گولڈ لیف کی بھی لیتے آنا۔‘‘ غمگین اندوہ پوری نے بیرے کو مخاطب کر کے کہا۔’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، میں نے بقیہ رقم بٹوے میں ڈالتے ہوئے غمگین سے مخاطب ہو کر کہا اور پھر میں اس سے اجازت طلب کرنے ہی کو تھا کہ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’آپ سے ایک درخواست کرنا تھی۔‘‘’’فرمائیے‘‘’’مجھے چند ہزار روپے اُدھار چاہئیں۔‘‘’’وہ کیوں؟‘‘’’میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ میں یہ کفن اپنے ساتھی سے اُدھار مانگ کر لایا ہوں۔‘‘’’ہاں‘‘’’اب میں واپس جاؤں گا تو وہ فوراً اُتروا لے گا۔ دیکھیں نا کوئی آ ہی جاتا ہے کتنی بری بات ہے؟‘‘’’ہاں ہے تو سہی، مگر آپ ان ہزار روپوں کا کیا کریں گے؟‘‘ ’’اپنے لیے کفن خریدوں گا۔‘‘’’وہ کیسے؟‘‘چند روز پہلے ایک صاحب دفن ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ولایتی لٹھے کے کئی تھان لے کر آئے تھے اور اب بلیک کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدھ دانہ ہی بچا ہے ویسے وہ یہ بات دام بڑھانے کیلئے کئی دنوں سے کہہ رہے ہیں لیکن ممکن ہے اس دفعہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں۔’’میں نے بٹوے میں سے پیسے نکالے اور غمگین اندوہ پوری کو دیتے ہوئے کہا:’’یہ میرے پاس آخری ہزار تھے جو پیش خدمت ہیں۔ صرف یہ فرما دیں کہ اس رقم کی واپسی کب ہو گی؟‘‘’’جب آپ دنیا کے جھمیلوں سے فارغ ہو کر ہمارے درمیان تشریف لائیں گے۔‘‘ غمگین اندوہ پوری نے کہا ’’اور انشاء اللہ آپ جلد آئیں گے۔‘‘’’آپ کو یہ بددعا دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔‘‘ میں نے اس ساری گفتگو کے دوران پہلی دفعہ غمگین کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’معافی چاہتا ہوں اگر آپ کو میری بات سے دکھ پہنچا ہے مگر بہت سے لوگ صرف اپنی ڈوبی ہوئی رقم کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ کل ایک شیخ صاحب دفن ہونے کے تھوڑی دیر بعد اُٹھ بیٹھے اور پوچھنے لگے کہ وہ مردود شیدا کہاں ہے جو میرے پانچ ہزار روپے مار کر یہاں آ گیا ہے۔ضبط کے باوجود بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی۔ میں غمگین اندوہ پوری کو داد دینے کیلئے اپنا ہاتھ اس کے شانوں پر رکھنے ہی کو تھا کہ وہ اچانک میری نظروں سے غائب ہو گیا۔ قبرستان کی طرف کھلنے والا دروازہ ابھی تک کھلا تھا مگر میں نے اپنا رُخ بازار کی طرف کر لیا جہاں انسانوںکا ایک ہجوم سائیکلوں، موٹرسائیکلوں، کاروں، اسکوٹروں، بسوں اور ویگنوں پر افراتفری کے عالم میں کسی بے سمت منزل کی طرف بھاگا چلا جا رہا تھا۔

تازہ ترین