قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو ،جس کا میں ممبر ہوں، کو پارلیمنٹ نے پہلی بار وفاقی بجٹ 2025-26 کے جائزے اور منظوری کی ذمہ داری سونپی۔ کمیٹی کے چیئرمین نوید قمر کی زیر صدارت تمام سیاسی جماعتوں کے 20اراکین قومی اسمبلی نے 10 سے 27 جون تک قومی بجٹ کا وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر مملکت خزانہ بلال کیانی، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال اور اُن کی پوری ٹیم کے ہمراہ مسلسل 18روز تک رات گئے 17573 ارب روپے مالیت کے 4.2فیصد GDP گروتھ بجٹ کا شق وار جائزہ لیا اور پارٹی پالیسی اور بزنس کمیونٹی کے اعتراضات سامنے رکھتے ہوئے ترامیم تجویز کیں جس میں سولر پینل کی امپورٹ پر سیلز ٹیکس 18فیصد سے کم کرکے 10فیصد اور 5کروڑ روپے سے زائد سیلز ٹیکس فراڈ میں براہ راست گرفتاری کے بجائے پہلے انکوائری کی تجویز دی گئی جسکی منظوری ایف بی آر کی ایک اعلیٰ سطح کمیٹی دے گی اور یہ جرم قابل ضمانت ہوگا جبکہ ترمیم سے پہلے ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی براہ راست گرفتاری کے اختیارات ایف بی آر کو تفویض کئے گئے تھے۔ پراپرٹی کی خریداری کے نئے طریقہ کار میں Eligible فائلر کی نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی تھی جس میں پراپرٹی رجسٹرار نے گزشتہ سال کے انکم ٹیکس گوشواروں کی بنیاد پر پراپرٹی خریدار کو اہلیت کا سرٹیفکیٹ دینا تھا جس پر میرے شدید اعتراضات تھے اور میںنےآبادکے چیئرمین حسن بخشی، عارف حبیب اور فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام شیخ کے ساتھ کئی میٹنگز میں اس طریقہ کار کو نہ صرف تبدیل کروایا بلکہ ایف بی آر نے نئے طریقہ کار کی ایپ بھی ہم سے منظور کروائی۔ پیپلزپارٹی نے اس سال بجٹ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 20 فیصد اضافی فنڈ مختص کروائے جس سے BISP کیلئے مختص رقم 716ارب روپے ہوگئی ہے۔ کنسٹرکشن شعبے کی بحالی کیلئے آباد کے ساتھ مل کر ہم نے بجٹ سے قبل وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے ساتھ کئی میٹنگز کی تھیں۔ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے تھے، تعمیراتی شعبے کو دی گئی مراعات میں پراپرٹی ودہولڈنگ ٹیکس میں 1.5 فیصد کمی، پراپرٹی کی منتقلی پر7فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ، ٹیکس کریڈٹ کا اجرااور اسلام آباد میں پراپرٹی کی خریداری پر اسٹیمپ ڈیوٹی 4فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنا شامل ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی پر زور دیا تھا، فنانس بل میں تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں کے سلیب میں تبدیلی کرکے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر 6لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے ملازمین پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردی گئی ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 6 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا تھا لیکن بجٹ کی منظوری کے وقت وزیراعظم نے تنخواہوں میں اضافہ 10فیصد کردیا۔بجٹ میں آن لائن مالی لین دین کو ڈیجیٹل پیمنٹس نظام سے منسلک کرنے کی تجویز ہے اور آن لائن اشیاء کی خریداری پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس میں امیزون سے خریداری پر بھی ٹیکس شامل ہے۔ ٹیکس وصولی کے نظام کو موثر بنانے کیلئے شوگر ملوں، سگریٹ مینوفیکچررز، سیمنٹ اور فرٹیلائزر سیکٹرز سے ٹیکس وصولی کیلئے Track & Trace سسٹم لگایا گیا ہے جس سے گزشتہ مالی سال کے دوران 312 ارب روپے وصول ہوئے تھے اور اس سال 340 ارب روپے کا ہدف ہے۔ بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر 2.5روپے کاربن لیوی بھی عائد کیا گیا ہے جو افراط زر میں اضافہ کرسکتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6کے بجائے 10فیصد اضافے اور سولر پینل کی امپورٹ پر سیلز ٹیکس 18فیصد سے کم کرکے 10فیصد کرنے سے مجموعی 36ارب روپے کا شارٹ فال ہوا ہے جسے پورا کرنے کیلئے حکومت نے پولٹری سیکٹر پر ایک دن کے چوزے پر 10روپے ایکسائز ڈیوٹی، میوچل فنڈز میں کمپنیوں کی سرمایہ کاری پر ٹیکس کی شرح 25فیصدسے بڑھاکر 29فیصد اور گورنمنٹ سیکورٹیز کے منافع کی شرح پر ٹیکس 15فیصد سے بڑھاکر 20فیصد کردیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا ہے مگر نان فائلرز کےلئے کار، گھر، پلاٹ کی خریداری، سیکورٹیز میں سرمایہ کاری اور بینک اکائونٹس کھولنے پر فی الحال نرمی کی گئی ہے لیکن اس کا اطلاق 70 لاکھ کی گاڑی، 10کروڑ روپے سے زائد کےکمرشل پلاٹ، 5 کروڑ روپے سے زائد کےگھر اور اسٹاک مارکیٹ میں سالانہ 5کروڑ روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کرنے والوں پر نہیں ہوگا۔ ایف بی آر نے اس سال ریونیو وصولی کا ہدف 18.7فیصد اضافے سے 14131ارب روپے رکھا ہے جبکہ دفاعی بجٹ 2550ارب روپے اور پنشن کیلئے 1006 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ پر بحث کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بجٹ کو حتمی شکل دینے پر میرے علاوہ فنانس اینڈ ریونیو قائمہ کمیٹی کے دیگر ممبران کا نام لے کر سراہا جس پر میں اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا مشکور ہوں۔ قارئین! یہ اب آپ فیصلہ کریں کہ حالیہ بجٹ کتنا غریب دوست اور بزنس فرینڈلی ہے؟