• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل اور امریکہ کی ایران سے بارہ روزہ جنگ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ جنگ ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھی اور امریکہ کا ایران سے بات چیت اور سفارت کاری کا عمل دکھاوے پر مبنی تھا۔اس جنگ سے اسرائیل نے دہرا فائدہ اٹھایا ہے ۔ایک طرف اس نے غزہ میں جاری نسل کشی سے دنیا کی توجہ ہٹا دی اور دوسری طرف غزہ میں قائم ایسے مشکوک امریکی۔اسرائیلی امدادی کیمپس سے بھی توجہ ہٹا دی جو دہشت گرد ملیشیا بشمول انتہا پسند ISISکے گروہو ں کی ملی بھگت سے قائم کیے گئے ہیں۔ معروف امریکی دانشور جیفری سچ (Jeffrey Sach)نے اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو، تو 1995سے ہی چاہتے تھے کہ حزب اللہ اور حماس سے نمٹنے کیلئے عراق، شام اورایران کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ امریکہ کا عراق پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔اسی وجہ سے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی مہم جوئی صرف جوہری ہتھیاروں کی روک تھا م تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ جنگ ایک ایسے ملک کو سزا دینے کیلئے شروع کی گئی تھی جس نے امریکی اجارہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔

امریکہ اور اسرائیل کی یہ جنگ دراصل امریکہ کی عالمی تسلط کی جنگوں کا ایک تسلسل ہے جو تیسری دنیا کے ممالک میں آج تک جاری و ساری ہے۔یاد رہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے ہی ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا جبکہ اسکے سارے صنعتی حریف کمزور ہوچکے تھے اور جنگ کے کچھ سال بعد ہی اس نے اپنی صنعتی پیداوار کو 4گنا بڑھا لیا تھا ۔جنگ کے خاتمے کے وقت امریکہ دنیا کی تقریباً نصف دولت کا مالک تھا ، اسے مغربی نصف کرہ میں کسی دشمن کا سامنا بھی نہ تھا اور اسے دونوں اطراف کے سمندروں ، بحرالکاہل اور بحراوقیانوس پر بھی مکمل کنٹرول حاصل تھا۔دنیا میں شاذو نادر ہی کوئی ریاست اتنی طاقت ور اور خطرات سے محفوظ ہوکر ابھری ہو۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے اہم عالمی منڈیوں ، توانائی کے سپلائرز اور اسٹرٹیجک وسائل تک بلاروک ٹوک رسائی یقینی بنائے رکھی اورہتھیاروں کی فراوانی اور جنگ و جدل کو بڑھا کر دنیا پر اپنے عالمی تسلط کو قائم رکھا۔اس سلسلے میں انسٹیٹیوٹ آف ورلڈ آرڈر اور راک فلر فائونڈیشن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے بڑے فوجی تنازعات کے بارے میں ایک رپورٹ 1984ء میں شائع کی جس میں 125بڑے فوجی تنازعات کا تجزیہ کیا گیاتھا۔ان تنازعات میں سے 95فیصد جنگیں تیسری دنیا کے ممالک میں کروائی گئیںاور ان جنگوںمیں امریکہ اور مغربی ممالک کا حصہ 79فیصداور کمیونسٹ ممالک کا حصہ صرف 6فیصدتھا۔ان اعدادو شمار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنی طاقت کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تیسری دنیا میں جنگیں کروائی جاتی رہیں ۔گوئٹے مالا، کیوبا ، ڈومنیکن ریپبلک ، انڈو چائینہ ،چلی ،آلسلواڈور اور نکارا گوا میںامریکہ نے اپنی مداخلتوں کے ایسے ہی بھونڈے جواز پیش کیے تھے جیسا کہ ایران کے خلاف حالیہ جنگ میں کیے ہیں۔یاد رہے کہ 2003ء میں امریکہ نے عراق کی تباہی کے بعددو بڑی کارپوریشنز ،BECHTELاور HALLI BURTONکوعرا ق کی تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالرز کے ٹھیکے دیے کیونکہ ان کمپنیوں کی قومی سلامتی کے اداروں سے دیرینہ دوستی تھی۔یعنی پہلے آپ تیسری دنیا کے ممالک کو تباہ و برباد کر دیں اور پھر اپنی ہی کارپوریشنز کے ذریعے انکی تعمیر نو کروائیں لیکن حالیہ ایرانی جنگ سے امریکی اپنے یہ اہداف حاصل نہ کرسکے۔بلوم برگ کے ایک تجزیئے کے مطابق پینٹاگون نے 2020میں 445بلین ڈالرز کے کنٹریکٹ دیے اور یہ کنٹریکٹ انہی کارپوریشنز کودیے گئے جو امریکی الیکشن میں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کو زیادہ سے زیادہ فنڈ دیتی ہیں۔امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں اور ڈیفنس کنٹریکٹرز ، امریکی کانگریس کے ممبران اور انکے اہل خانہ کو بلین ڈالرز کے ڈیفنس شیئرز دلواتے ہیںکیونکہ کسی بھی جنگ کی صورت میں ان شیئرز کا منافع کئی گنا بڑ ھ جاتا ہے۔امریکہ میں یہ اشرافیہ چند ارب پتیوں اور ایک ہزار کارپوریشنز کا نام ہے جو پوری دنیا میں اپنی مرضی کے قوانین ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے نافذ کرتے ہیںحالانکہ چین نے اپنی حالیہ پالیسیوں کے ذریعے اس تسلط کو کچھ کمزورضرور کیا ہے ۔

اس جنگ سے امریکہ اور اسرائیل نے دو اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کرنا اور دوسراایران میں رجیم چینج کیلئے راہ ہموار کرنا۔اس سلسلے میں جنگ شروع کرنے کے فوراً بعد نیتن یاہو نے تقریر کرتے ہوئے ایران میں حکومت مخالفین کو کہا تھا کہ وہ اب پاسداران انقلاب کی حکومت کو گرا دیں ۔لیکن اسکے بالکل برعکس ایران میں بائیں بازو کی سب سے پرانی جماعت ’’تودا پارٹی‘‘ نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی بلکہ دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ نہ تو ایرانی رجیم ہٹائو مہم کی حمایت کریں گے اور نہ ہی اسے برداشت کریں گے۔یاد رہے کہ تودا پارٹی کے کارکنان ایران میں عرصے سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔اس جنگ سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاسداران انقلاب کو اپنے سماج میں وسیع پیمانے پر ریفارمز کرنی ہوں گے جس میں تودا پارٹی اور دوسری بائیں بازو کی پارٹیوں پر پابندیاں ختم کرنے ، سیاسی کارکنان کو رہا کرنے اور خواتین او ر اقلیتوں کو انکے حقوق دینے کے سلسلے میںپارلیمنٹ میں قانون سازی کی راہ ہموار ہو سکے تاکہ سارا سماج ایک ایرانی قوم بن کرآئندہ ہونے والی ممکنہ جارحیتوں کا مقابلہ کر سکے۔

تازہ ترین