• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر مخصوص طبقہ ،جسکی افتاد طبع کے باعث میں ـ’’طفلان انقلاب‘‘کی اصطلاح استعمال کیا کرتا ہوں ،اسکی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ گویا عدلیہ کےچہرے پر ایک اور سیاہ دھبے کا اضافہ ہوگیا۔اگرچہ یہ’’نونہالانِ انقلاب‘‘معقولیت کے بجائے جذباتیت کی طرف مائل ہیں ،ٹھوس شواہد کے بجائے زورِبیاں کے قائل ہیں اور استدلال کے بجائے مخالفین کے ذہنی اضمحلال پرانحصار کرتے ہیں مگر ریکارڈ درست کرنے کی غرض سے حقائق پیش کرنے میں کیا حرج ہے۔خواتین اور اقلیتوں کیلئے نشستیں کب اور کیسے مخصوص ہوئیں؟سب سے پہلے ہم یہ تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔1973ء کے آئین میں یہ سوچ کر مخصوص مدت کیلئے خواتین کو دس نشستیں دی گئیں کہ طبقہ نسواں کے عملی سیاست میں حصہ لینے کا رجحان فروغ پائے اور ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی ہو۔جنرل ضیاالحق کے دور میں خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کی تعداد 10سے بڑھا کر 20کر دی گئی۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد چونکہ آئین میں رکھی گئی اس گنجائش کی مدت مکمل ہوگئی تو خواتین کا کوٹہ ختم ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف تشریف لائے تو انہیں لگا لبرل اِزم محض طبقہ اشرافیہ کی خواتین کو قومی اسمبلی میں آرائش و زیبائش کے نمونے کے طور پر لا بٹھانے کا نام ہے۔ نام نہاد روشن خیالی کو فروغ دینے کیلئے قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے 60نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ پہلے تو خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر بھی سینیٹ کے انتخابات کی طرح الیکشن ہوا کرتا تھا مگر اس بار جمہوریت کے چہرے پر سلیکشن کی کالک مل دی گئی۔ یہ اختیار سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو دے دیا گیا کہ محض پسند ناپسند کی بنیاد پر خواتین کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھجوا کر انہیں ارکان اسمبلی بنوا لیں ۔ بہرحال تفصیل میں جائے بغیر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آگے بڑھتے ہیں ۔فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات میں چونکہ تحریک انصاف کے پاس بلے کا انتخابی نشان نہیں تھا ،اس لئے اسکے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔یہ لوگ منتخب ہونےکے بعد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے تاکہ مخصوص نشستوں کا کوٹہ حاصل کیا جاسکے۔جب ایسا نہیں ہوا تو سنی اتحاد کونسل کی طرف سے پشاور ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی ۔یہ مقدمہ لاہور یا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی دائر کیا جاسکتا تھا لیکن ان دنوں چونکہ پشاور ہائیکورٹ سے مسلسل تحریک انصاف کے حق میں فیصلے آرہے تھے اس لئے وہاں انصاف کی دہائی دی گئی۔ 14مارچ2024ء کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رُکنی بنچ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں کیونکہ مقررہ مدت میں فہرستیں جمع ہی نہیں کروائی گئیں ۔سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل 13رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت شروع ہوئی تو انکشاف ہوا کہ سنی اتحاد کونسل کے دستور کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم اس جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا تو اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں اسے کیسے دی جاسکتی ہیں۔اس دوران یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات کے دوران کوئی ایک نشست بھی نہیں جیتی ،اسکے سربراہ نے بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تو پھر اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟ یہ حقائق سامنے آنے کے بعد سنی اتحاد کونسل کا مقدمہ کمزور نہیں ہوا بلکہ یکسر ختم ہوگیامگر بعض جج صاحبان اپنے آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر ’’مکمل انصاف‘‘ کرنے پر بضد رہے اور تحریک انصاف جو پشاور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک کسی فورم پر فریق ہی نہیں تھی ،یہ مخصوص نشستیں اسے دینے کا فیصلہ کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ آنے والے ارکان جنہیں 3دن میں اپنی وابستگی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ،انہیں مزید15دن عطا کردیئے گئے۔یہ اسی طرح کا غیر آئینی حکم تھا جس طرح سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو تین سال عطا کئے یا پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ آنے پر جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے 6ماہ کی مہلت عطا کی۔جسٹس منصور علی شاہ سمیت وہ 8جج صاحبان جنہوںنے مخصوص حالات میںمخصوص طبقے کو نوازنے کیلئے مخصوص نشستوں سے متعلق یہ مخصوص فیصلہ دیا ،وہ آئین اور قانون کو ازسر نو تحریر کرنے کے مترادف تھا۔

الیکشن کمیشن اور عدالتیں پسند ناپسند کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں ۔قانون یہ کہتا ہے کہ آزاد ارکان پارلیمنٹ خواہ کتنی بڑی تعداد میں منتخب ہوکر کیوں نہ آجائیں ،انہیں مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں ۔قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے60جبکہ اقلیتوںکیلئے مخصوص10نشستیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو ہی دی جاتی ہیں اور اس کیلئے ترجیحاتی فہرستیں پہلے سے جمع کروادی جاتی ہیں۔لیکن ’’طفلان اِنقلاب‘‘ کا اپنا ڈھب اور انداز ہے ۔پانامہ کا مقدمہ ہے مگر وزیراعظم کو اقامہ کے الزام میں نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔آئین کہتا ہے نااہلی تاحیات نہیں ہوگی مگر کچھ جج صاحبان اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے 62(1)f کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیتے ہیں۔اسی طرح آئین واضح کرتا ہے کہ فلور کراسنگ کرنے والے رُکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار ہوگااور بعد ازاں اسے اپنے کئے کی سزا ملے گی ،لیکن ’’مکمل انصاف‘‘کی اختراع کے تحت کچھ جج صاحبان فیصلہ سناتے ہیں کہ ووٹ شمار نہیں ہوگا تو ’’نونہالان ِ انقلاب‘‘ ان فیصلوں کو تاریخی قرار دیتے ہوئے جشن طرب مناتے ہیں ،عدلیہ کے گن گاتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار سے جسٹس عمر عطا بندیال تک جس طرح عدلیہ کو پنچایت کے طرز پر چلایا گیا ،آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ازخود نوٹس کے اختیار سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا۔بنچ فکسنگ کے ذریعے من پسند فیصلے حاصل کئے گئے ،شاید یہ لوگ آج بھی اسی طرز کا ’’انصاف‘‘ چاہتے ہیں۔اس لئے انہیں آئینی بنچ کا فیصلہ بہت ناگوار محسوس ہوا ہے۔

تازہ ترین