روس کے مشرقی حصے کے قریب 8.8 شدت کے زلزلے کے بعد بحر الکاہل کے مختلف حصوں میں سونامی کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔
اِس موقع پر یہ جاننا ضروری ہے کہ سونامی کیا ہے، کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے؟
سونامی، طوفانی پانی کی لہر ہوتی ہے جو سمندر میں دور دور تک پھیلتی ہے، سونامی کی لہریں زیادہ تر زیرِ سمندر شدید زلزلوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، ایسے کسی شدید زلزلے کی وجہ سے جب زمین کی پرت اچانک اور زور سے حرکت کرتی ہے تو اِس سے پانی کی بڑی مقدار متاثر ہو کر لہروں کی صورت میں حرکت کرنے لگتی ہے۔
سمندر کی یہ لہریں اپنے مرکز سے چاروں طرف برق رفتاری سے پھیلتی ہیں، بعض اوقات ہوائی جہاز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے اور ہزاروں کلومیٹر تک ساحلی علاقوں کو متاثر کر سکتی ہیں، اگرچہ زیادہ تر سونامی شدید زلزلوں کی وجہ سے آتی ہیں مگر بعض اوقات آتش فشاں پھٹنے، زمین کھسکنے، بڑے طوفانوں یا کسی شہابِ ثاقب کے سمندر میں گرنے سے بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
ابتدائی طور پر جب سونامی کی لہریں سمندر میں پیدا ہوتی ہیں تو ان کی اونچائی کم اور لہروں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا ہے لیکن جب یہ لہریں ساحل کے قریب پہنچتی ہیں تو سمندر کی تہہ کی ساخت کی وجہ سے ان کے درمیان فاصلہ کم اور اونچائی بہت زیادہ ہو جاتی ہے، یہ لہریں ساحل سے کئی بار، کئی گھنٹوں یا بعض اوقات کئی دنوں تک ٹکرا سکتی ہیں۔
ساحل پر موجود افراد کے لیے سونامی کی پہلی نشانی عموماً یہ ہوتی ہے کہ سمندر اچانک پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ساحل خشک ہو جاتا ہے جس کے بعد خطرناک بلند لہریں آتی ہیں۔
بحر الکاہل زلزلوں اور سونامی کے لیے خاص طور پر حساس علاقہ ہے لیکن دنیا کے دیگر حصے بھی اس قدرتی آفت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
2004ء میں انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے قریب 9.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے بحرِ ہند میں ایک مہلک سونامی پیدا ہوئی تھی، اس زلزلے نے ہِیروشیما پر گرائے گئے 23 ہزار ایٹم بموں جتنی توانائی خارج کی تھی۔
اس سانحے میں 11 ممالک کے تقریباً دو لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے اکثر زلزلے کے مرکز سے ہزاروں کلو میٹر دور تھے۔
1883ء میں بحر الکاہل کے جزیرے کراکٹووا کے آتش فشاں کے پھٹنے سے جو سونامی پیدا ہوئی تھی اس سے تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، یہ دھماکا ساڑھے چار ہزار کلومیٹر دور تک سنا گیا تھا۔
رومن مؤرخ مارسیلینس نے 365 عیسوی میں اسکندریہ میں آنے والے سونامی کے بارے میں لکھا تھا کہ سمندر پیچھے ہٹا، پانی اس قدر دور چلا گیا کہ سمندر کی تہہ ظاہر ہو گئی اور طرح طرح کی سمندری مخلوقات دکھائی دینے لگیں، پھر اچانک پانی واپس آیا اور ہزاروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہلاک کر دیا۔
رومن مورخ کے مطابق اس سونامی میں بڑے بڑے جہاز بھی ساحلی عمارتوں کی چھتوں سے جا ٹکرائے تھے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ سونامی سے خبردار کرنے کا نظام ہر جگہ موجود نہیں ہے۔
2030ء تک ساحلی آبادیوں کے لیے سونامی، سیلاب اور طوفانوں کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا، اس لیے سونامی کے خطرے سے بچاؤ کے لیے اقدامات بہت ضروری ہیں۔