کوئی بھی ریاست، چاہے وہاں جمہوریت ہو، ڈکٹیٹر شپ ہو یا بادشاہت اس کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہاں اخبار جو چاہیں چھاپ دیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن جو چاہیں نشرکردیں۔کیونکہ چھپنے والے الفاظ اور دکھائی اور سنائی دینے والے فقرے اور تصویریں انسانی بستیوں میں آگ لگا سکتی ہیں۔ معاشروں کے تاروپود ہلاسکتی ہیں، افراد اور اداروں کو بے وقار کرسکتی ہیں اور پورے معاشرے کو انارکی کی دلدل میں اتار سکتی ہیں۔ لہٰذا چھاپنے اور نشر کرنے والے اداروں پر نگران مقرر کئے جاتے ہیں ، سخت قوانین اور ضابطوں کے پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو پچھلے بارہ سالوں سے ہورہا تھا اس پر یورپی ممالک (جہاں سے آزاد میڈیا کا تصوّر آیاہے) کے سفارتکار بھی ہنستے تھے اورالیکٹرانک میڈیا کو ملنے والی آزادی کی’’آزادیاں‘‘ دیکھ کر enjoyکرتے تھے اور نجی محفلوں میں برملا کہتے تھے کہ آزادی کی یہ قِسم دنیا میں اور کہیں نہیں پائی جاتی۔ زندہ معاشرے میڈیا کی آزادی کے پُرجوش حامی ہوتے ہیں مگر آزادی کے اثرات سے غافل نہیں ہوتے۔ اس لئے وہاں بڑے سخت بیریئرز لگائے جاتے ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کہا کرتے تھے کہ ’’برقی میڈیا آ پ کی طرح uncheckedہوگا تو وہی کرے گاجو شیشے کی دکان میں گھسا ہوا ہاتھی کرتا ہے‘‘۔ ناتجربہ کار نوجوانوں کو ٹاک شوز کے تخت پر براجمان دیکھ کر کئی سینئر صحافی اپنی محفلوں میں کہتے تھے کہ ’’آپ نے چنگ چی چلانے والوںکو ایف16پر بٹھادیا ہے تو پھر نتیجہ بھی بھگتیں‘‘۔
دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں انسانی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لئے میڈیاکی حدود مقرر کی جاتی ہیں اسے کڑے احتساب کا پابند بنایا جاتا ہے۔ میڈیا کے احتساب کیلئے محتسب، میڈیا کو نسل یا میڈیا واچ ڈاگ جیسے انتہائی متحرک اور موثّرادارے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس جی این رائے نے میڈیا کیلئے "Norms of Journalistic Conduct''کے نام سے تیار کردہ ضابطۂ اخلاق کے دیباچے میں لکھا ہے کہ’’جرنلزم کا مقصد، عوامی دلچسپی کے موضوعات پر درست، سچی، منصفانہ، غیر متعصبانہ اور شائستہ انداز اور زبان میں خبریں ، تبصرے اور معلومات فراہم کرکے عوام کی خدمت کرنا ہے۔ معاشرے پر چونکہ میڈیا کے اثرات بے پناہ ہیں، اس لئے میڈیا کو اپنی طاقت کے ساتھ ساتھ اپنی ذمّہ داریوں سے کسی صورت غافل نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ دنیابھر میں میڈیا کی راہنمائی کیلئے موجودضابطوں میں اس بات پر سب سے زیادہ زور دیاگیا ہے کہ میڈیا میں لکھی اور بولی جانے والی زبان انتہائی شائستہ اورفواحش سے پاک ہو۔ انڈیا کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق’’ کوئی ایسی چیز نہ شائع کی جائیگی اورنہ سکرین پر دکھائی جائیگی جو عریاں یا فحش یا شہریوں کے ذوقِ سلیم سے مطابقت نہ رکھتی ہو یا شائستگی اور اخلاق کے منافی ہو‘‘۔ ہماری مذہبی اور سماجی اقدار کے پیشِ نظر فواحش اور لچرپن سے گریز پر اور زیادہ زور ہونا چاہیے۔
بھارت کے جسٹس جی این رائے نے مزید لکھا ہے ’’گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کی آڑ میں میڈیا کو معاشرتی اقدار پر وار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ میڈیا کا اتنا اہم اور حساس رول ہے کہ اسے بزنس یا انڈسٹری کی کمرشل ضروریات سے بالا تر ہوکر سوچنا چاہیے اسے اپنے ثقافتی ورثے اور سماجی اقدار کے تحفظ کیلئے مؤثر کردار اداکرنا چاہیے‘‘۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں ابھی ادارے مستحکم نہ ہوں اور قانون کی حکمرانی خواب ہووہاں اطلاع کے ساتھ اصلاح اور entertainکرنے کے ساتھ ساتھ educateکرنابھی میڈیا کا فرض بن جاتا ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آزادی یا پرائیوٹ چینلزکا تحفہ کسی ڈکٹیٹرنے اپنی خوشی سے دیا ہے تو یہ اس کا بھولپن ہے۔یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پرائیویٹ چینلز کاجنم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاروباری ضروت کے باعث ہوا۔ سرکاری بلیٹن سن سن کر تنگ آئی ہوئی اور اختلافی بات سننے کو ترستی ہوئی قوم نے پرائیویٹ چینلز کا دل وجان سے خیر مقدم کیا۔ آغاز میں (جب ایک دو چینلز تھے) ریسرچ کا کلچر بھی تھا جس سے معیار کسی حد تک مناسب رہامگر جب چینلز Mushroomکی طرح نکلنے لگے تو سطحی قسم کے مباحثوں بلکہ مناظروں اور مباہلوں کو رواج دیا گیا۔ اب خیر سے صبح کا آغاز ڈانس سے کیا جاتاہے۔ خبریں اور ڈرامے ساری فیملی مل کر دیکھتی ہے مگرڈراموں میں extra marital affairپسندیدہ موضوع ہے۔ بیوی شوہر سے چھپ کر کسی اور شخص سے مل رہی ہے۔ بھتیجا، چچی سے اور بھانجاممانی کے ساتھ عشق کررہا ہے۔ خبروں کے دوران بیہودہ اشتہاردکھائے جاتے ہیں۔ پرائم ٹائم میں بازاری اور غیرشائستہ جملے سنائے جاتے ہیں۔اتنے موثّر قومی فورم کو گھٹیا قسم کی جگت بازی اور بھانڈ پروری کی نذر کردیا گیاہے۔خالقِ کائنات کے واضح احکامات، وطنِ عزیز کی بنیادی اقدار اور خود بانیانِ پاکستان کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یومِ آزادی پر ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کرلایا جاتا ہے جو نشے کی حالت میں آکرآزادی پر ہی انگلی اٹھادیں۔ اقبالؒ اورقائدؒ پر پروگراموں کوفٹیگ سمجھ کر کارروائی ڈالنے کیلئے بڑی بے دلی سے نبھایا جاتا ہے۔ ہندو کلچر کو ایک مشن سمجھ کر پھیلایا گیا ہے اور نئی نسل کو امید کی روشنی دکھانے کی بجائے مایوسی کے دلدل میں دھکیلا گیاہے۔ تعلیم،صحت،زراعت، گورننس کے سنجیدہ موضوعات اور سماجی مسائل پر کوئی پروگرام نہیں ہوتے، کسی قابل استاد، ڈاکٹر، انجینئر، ایماندار سول سرونٹ، باضمیر پولیس افسر یا سرحدوں کے محافظ کی بجائے نیم خواندہ اداکاروں یا بدنام ایکٹرسوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے تفریحی پروگراموں کا ایک ہی تھیم ’’میں نچاّں ساری رات‘‘ اور نئی نسل کو ناچنے پر لگانا۔ ان کا مشن! ملک کے خوبصورت پہلوؤں کو نظر انداز کرکے صرف منفی پہلو بڑھا چڑھا کر دکھائے جاتے ہیں۔ مختلف چینل ایک دوسرے کے خلاف گھنٹوں غلیظ زبان استعمال کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک دوکے سوا باقی چینلز تو ملک کی عزّت، وقار اور مفاد کا خیال رکھنا فیشن کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ خبر نشرکرکے آپ دشمن ملک کے مخبر کیوں بنے یا آپ نے پاکستان کے دشمنوں کی تائید کیوں کی؟ تو بڑی بے نیازی اور تکبّر سے کہا جاتا ہے ’’ہم حقائق نہیں چھپاتے۔ہرخبر عوام تک پہنچانا ہمارافرض ہے‘‘جھوٹ! سراسر جھوٹ! آپ حقائق چھپاتے ہیں۔ کیا بصداحترام پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کے ایڈیٹر صاحب یا ان کا کوئی فیملی ممبرکسی غیر قانونی کام میں ملوث ہو یا فیملی کی لڑکی کسی دوست کے ساتھ چلی جائے(ایسی کئی خبریں میرے علم میں ہیں) تو کیا آپ یہ خبریں چینل پر چلائیں گے؟ جی نہیں آپ ہر گز نہیں چلائیں گے! کیونکہ آپ کو اپنے ایڈیٹر اور ان کی ’’فیملی کی عزّت ‘‘عزیز ہے۔ آپ آٹھ دس افراد پر مشتمل گھرانے کی عزّت کا خیال کرتے ہیں مگر وطنِ عزیز کے اٹھارہ کروڑ شہریوں کی مشترکہ عزّت اور مفاد کو روندنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔ کیا باوقار ترکوں کے ملک میں ایسا ممکن ہے؟ کیا غیرت مند ایرانی یہ برداشت کرسکتے ہیں، کیا نگاہ بلند رکھنے والے ڈاکٹر مہاتیر کے ملک میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ ہرگزنہیں!
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عوام پورے الیکٹرانک میڈیا سے بدظن اور بددل تھے۔ ایک چینل سے ایک دوبڑے بلنڈر سرزدہوئے تو عوام نے جو پہلے ہی بھرے ہوئے تھے، سارا غصّہ اس پر نکال دیا ۔ دراصل یہ غصّہ اور ناپسندیدگی تمام چینلز کیلئے ہے۔ عوام (ایک دو کے سوا) تمام چینلز کے پروگراموں سے ہی نالاں اور بدظن ہیں۔ دانائے راز اقبالؒ سوسال پہلے کہہ گئے تھے
سینہ روشن ہوتو ہے سوزوسخن عین حیات
ہونہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی
یو این او کے امن مشن میں کئی ماہ گذارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا پولیس افسر بھارتی پولیس سے بہتر ہے، ہمارا فوجی افسر ان سے بہتر، ہمارا ڈاکٹر ان سے زیادہ قابل، ہمارا طالب علم ان سے زیادہ لائق۔ آخر فنونِ لطیفہ والے کیوں بانجھ ہوگئے ہیں کہ بھارتیوں کے کمی اور غلام بن گئے ہیں!!
پہلے بھی لکھا ہے کہ فوج سیاست میں ملوث نہ ہو تو پوری قوم کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے۔ ایک اہم ملٹری ادارے کے سربراہ سے زیادتی ہوئی تو پوری قوم نے ناپسندیدگی کا برملا اظہار کیا اور پوراملک ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ مگر یہ ساری محبّت اور عزّت اس فوج کیلئے ہے جو سیاست سے الگ ہے اور ملک کے تحفظ کیلئے جانیں دے رہی ہے۔ فوج سیاست میں ملوث ہو گی تو متنازع بن جائیگی اور اِس محبّت اور احترام سے محروم ہوجائیگی۔ چند عاقبت نا اندیش مفادپرست فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں وہ دراصل اپنے دال دلئے کا بندوبست کرناچاہتے ہیں فوج سے انہیں کوئی عقیدت نہیں ہے۔ جنرل مشرف ان کا محسن تھا مگر اب اسے ملنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
جیو نے اپنی خطا پر بار بار معافی مانگی ہے۔ فوج کو ملک کے بڑے مقتدرادارے کی حیثیت سے انتقام لینے کی بجائے وطن ِ عزیز کا مفاد پیشِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ انتقام پاک فوج جیسے مقبول ادارے کے شایانِ شان نہیں اگر ان کے جوانوں نے صحافتی کارکنوں کو تشددکا نشانہ بنانا شروع کیا تو ہمدردی کی لہر پلٹ جائے گی۔ وطنِ عزیز کا مفاد انتقام یا بندش میں نہیں ایک موثّر ضابطۂ اخلاق کے نفاذ میں ہے ۔ موجودہ بحران کا حل ایک ہی ہے۔ ایک ایسا موثّرضابطۂ اخلاق جو تمام چینلز کو مادرِ وطن کی مذہبی ، سماجی اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کرنے کا پابند بنائے اور خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانے کرسکے اور ایک دن سے پندرہ دن تک بندش کی سزا دے سکے۔ہر چینل قانون کا پابند ہویا پھربند ہو۔
یاد رہے کہ کسی ایک فرد پر الزام (چاہے کتناہی سنگین اور غلط کیوں نہ ہو) ملک کو گالی دینے کے مترادف نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی فرد چاہے وہ مقننہ کا سربراہ ہو، پارلیمنٹ کا ہیڈ ہو، عدلیہ کا چیف ہو یا فوج کا چیف، indispensableنہیں ہوتاکہ چند سالوں کے بعد وہ سین سے ہٹ جاتا ہے مگر ملک ہمیشہ کیلئے قائم اور دائم رہے گا انشاء اﷲابد تک زندہ وتابندہ وپائندہ رہے گا۔