چند ایسے واقعات نظروں سے گزرے، سماعتوں سے ٹکرائے کہ کسی جامعہ میں شرپسند طلبہ نے پروفیسر حضرات کو زدوکوب کیا یا تشدّد پر آمادہ ہوئے یا کبھی انفرادی طور پر کسی طالبِ علم نے طاقت کے نشے میں اپنے استاد کی تذلیل کی۔ مگر اب تو یہ عفریت جامعات، کالجز سے نکل کر اسکولز کی سطح تک پہنچ گیا ہے اور اساتذہ، بچّوں کے ساتھ ساتھ اُن کے والدین کے ہاتھوں بھی تذلیل کا شکار ہورہے ہیں۔ آج اساتذہ نہ کلاس رومز میں محفوظ ہیں، نہ کمرا امتحان میں۔ جیسا کہ حال ہی میں کراچی کے ایک نجی اسکول میں ایک معلمہ کے ساتھ پیش آنے والے ظلم و زیادتی کے واقعے نے بےحد افسردہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق بچّی کو تاخیر سے اسکول آنے پر معمولی سرزنش کی گئی، لیکن واقعے کے دس روز بعد بچّی کا ماموں، جو ایک معمولی پولیس اہل کارہے، اسلحے کے زور پر بچّی کے والدین کے ساتھ اسکول میں داخل ہوا اور عملے اور اساتذہ کونہ صرف دھمکیاں دیں، اُنھیں تشدّد کا بھی نشانہ بنایا، جو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔
ایسے واقعات سے اندازہ ہوتا ہےکہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر نہیں بلکہ زوال پاچُکا ہے۔ کس قدر دُکھ کی بات ہے کہ آج کا استاد اپنے ہی شاگرد کے شر سے محفوظ نہیں اور یہ دُکھ تب مزید بڑھ گیا، جب یہ خبر اخبار کی زینت بنی کہ عدالت نے تینوں ملزمان کی درخواستِ ضمانت محض بیس ہزار روپوں کے عوض منظور کرلی۔ یعنی عدالت نےایک استاد کی عزت کی قیمت محض بیس ہزار لگائی۔
قصّہ مختصر، ایک استاد کی اِس تذلیل نے ہائی پیشیا کے دردناک قتل کی یاد تازہ کردی۔ یہ قتل یورپ کے تاریک دَور کے آغاز سے ذرا پہلے کا واقعہ ہے، جب یورپ اپنے سیاسی، سماجی، ثقافتی اورعلمی زوال کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہائی پیشیا کون تھیں؟ ہائی پیشیا پانچویں صدی عیسوی کے اسکندریہ کی ایک روشن خیال فلسفی، ماہرِ فلکیات، ریاضی دان، معلمہ اور اسکندریہ کے رومی گورنر اوریٹس کی مشیر ہونے کی حیثیت سے سیاسی اثرورسوخ کی حامل خاتون تھیں۔
وہ غیرمسیحی اور نیوپلاٹونزم کے فلسفے (قدیم یونانی فلسفہ، جسےنئی شکل دےکر صوفیانہ، روحانی عناصر شامل کیےگئے) کی پیروکار تھیں۔ یعنی وہ ایک خدا کو ماننے والے مکتبۂ فکر کی علم بردار تھیں۔ اُس وقت اسکندریہ میں کئی مذاہب، فلسفے رائج تھے، تاہم رومی سلطنت مسیحی مذاہب اختیار کرچُکی تھی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسکندریہ کے بشب سرل اور گورنر کے درمیان اقتدار اور اختیارات کے حصول کی ایک کشمکش جاری تھی۔
یہ دو طاقت وَر انسانوں کی لڑائی تھی، جس میں آگے چل کرنقصان ایک کم زور عورت، ہائی پیشیا کا ہوا۔ ہائی پیشیا کے والد، تھیونَ الیگزینڈرسس اسکندریہ یونی ورسٹی کے ہردل عزیز پروفیسر، معروف ریاضی دان تھے۔ اُنھیں اپنی بیٹی سے بڑی اُمیدیں تھیں۔
ہائی پیشا نے باپ ہی کی رہنمائی میں آرٹس، ادب، سائنس، فلسفے اور ریاضی کے مضامین پر دسترس حاصل کی۔ وہ کشتی بانی، تیراکی، گھڑ سواری بھی کرتیں اور ذہین و فطین ہونے کے ساتھ نہایت خُوب صُورت، باوقار خاتون تھیں۔
یونان سے مصر واپسی پر اُنھیں اسکندریہ یونی ورسٹی میں ریاضی اور فلسفہ پڑھانے کی پیش کش ہوئی، تو وہ دیافنطس کے علمِ حساب پر لیکچر دیتیں، افلاطون، ارسطو کی تعلیمات کو درس وتدریس کے موضوعات میں شامل کرتیں، تب ہی دنیا کے گوشے گوشے سے علم کےمتلاشی اُن کےلیکچرز سُننے کھنچے چلے آتے۔
صرف تیس سال کی عُمر میں اُنہیں اسکندریہ یونی ورسٹی کے افلاطونی اسکول کی سربراہ بنا دیا گیا، مگر وہ بڑا فتنہ پرور دَور تھا۔ تنگ نظر مسیحی اور غیرمسیحی پیگن آبادی کے درمیان سیاسی و سماجی برتری کی ایک جنگ جاری تھی۔ اکثر اسکندریہ کی سڑکوں پر پُرتشدّد واقعات دیکھے جاتے۔ ہائی پیشیا کی قابلیت ومقبولیت سے انتہا پسند عناصر خطرہ محسوس کرتے تھے، بعض کا خیال تھا کہ ایک عورت کا مَردوں کو تعلیم دینا، بائبل کی روایات کے خلاف ہے۔
دراصل جنگیں، لڑائیاں ہمیشہ طاقت و اقتدار کے حصول کے لیے ہوتی ہیں اور مذہب اُن کو ایندھن اور افرادی قوت فراہم کرتاہے۔اُس دَور کے اسکندریہ میں ماب وائلنس (Mob violence) ہجوم کا تشدّد ایک عام رویہ بن چُکا تھا۔ مذہبی رہنما اکثر اپنے پیروکاروں کو مخالفین کے خلاف اکساتے۔ بشب سرل اور کچھ انتہا پسند راہبوں نے ہائی پیشیا کےخلاف بھی نفرت انگیز باتیں، افواہیں پھیلائیں، جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ 415 عیسوی میں چرچ کے ایک پیٹر نامی لیکٹر یا قاری کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم نے ہائی پیشیا پرحملہ کردیا۔
بتایا جاتا ہے کہ پہلے اُنہیں رُتھ کے پہیے سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔ بعد میں لاش کی باقیات کو آگ لگا دی گئی۔ دوسری روایت کے مطابق انہیں رُتھ سے اتار کے تذلیل کی گئی، جسم سے گوشت اتارا گیا اور پھر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آگ لگا دی گئی۔
اِس طرح کے قتل کی روایات آگے چل کرمذید پختہ ہوئیں۔ تاریخ کی کتابیں ایسے واقعات سے بَھری پڑی ہیں، جب مخالفین خاص طور پر پڑھی لکھی انٹیلکچوئل اور سوال کرنے والی عورتوں کو ارتداد یا جادو ٹونےکرنے والی کہہ کرآگ لگا دی گئی۔
یہ بشب سرل اور گورنر اوریٹس کے مابین جاری کشمکش کا براہِ راست نتیجہ تھا، مگر تاریخ دان اِس قتل کو کلاسیکی علم کے زوال کا نام دیتے ہیں۔ یاد رہے، ہائی پیشیا موت سے قبل جن تکونوں پر کام کر رہی تھیں، وہ اُن کی موت کے 1300 سال بعد ایک سائنس دان نے دریافت کیں۔
اسکندریہ طویل عرصےتک علم ودانش کا مرکز رہا، جہاں مشہور کتب خانے، تعلیمی ادارے موجود تھے اور ہائی پیشیا اُن علمی روایات کی آخری علم بردار تھیں کہ اُن کا قتل علم، آزادیٔ فکر، برداشت اور تحقیق و فلسفے کے خاتمے کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے اِس عدم برداشت، ظلم وبربریت کا پس منظر جاننا بھی ضروری ہے۔ یروشلم کا رومی گورنر، جس نے حضرت عیسٰیؑ کی مصلوبیت کا حُکم دیا۔
وہ چھبیس عیسوی سے، چھتیس عیسوی تک جوڈیا یعنی یہودیہ کا حاکم رہا، جس میں یروشلم کا شہر بھی شامل تھا۔ انجیل کے مطابق یہودی مذہبی رہنماؤں کے ایک ہجوم کے دباؤ میں آکر گورنر نے حضرت مسیحؑ کومصلوب کیا۔ انجیل کی تشریحات مثلاًمتی کی انجیل، باب27:25 پیلاطس (گورنر) کے سامنے یہودی ہجوم کا یہ کہنا کہ اِس (مسیح) کا خون ہم پر اور ہماری اولاد پر ہو۔ یہ اور اس طرح کی اور تشریحات مسیحوں کی یہودی اور رومی دشمنی کا موجب بنیں۔
پہلے پہل حضرت عیسیٰؑ کے پیروکار یہودیوں اور رومیوں کے نشانے پر رہے۔ ایک طاقت وَرجماعت کسی کم زور پر جتنے مظالم ڈھاسکتی ہے،وہ مسیحیوں پر ڈھائے جاتے رہے، مگر مسیحیت زیرِزمین رہ کے رومی سلطنت میں بتدریج پھیلتی رہی اور بعد میں عالم گیر مذہب بن کر سامنے آئی۔
ابتدا میں قریب تینتیس عیسوی میں سینٹ پیٹر کی تبلیغ و تعلیمات سے یروشلم میں لوگوں نے عیسائیت قبول کی اور سینٹ پال نے یروشلم سے باہر کی دنیا کے تبلیغی سفر کیے۔ تاہم رومی سلطنت میں یہ ہمیشہ مار کھاتے رہے، یہاں تک کے چونسٹھ عیسوی میں شہنشاہ نیرو نے روم میں آگ لگا دی، جس کا الزام محکوم عیسائیوں پر لگایا گیا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اُن کا قتلِ عام ہوا۔
کہتے ہیں، اِسی قتل وغارت کےدوران سینٹ پیٹر اور پال بھی قتل ہوئے۔ اسکندریہ میں قدیم یونانی، رومی مذاہب کے ماننے والے اور قاتلینِ یسوع مسیح یعنی یہودیہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ معلوم دنیا کے تمام فلسفی، علم وادب سے تعلق رکھنے والے لوگ، بڑے بڑے کتب خانے، علمی وادبی بحثیں یہیں ہوا کرتیں۔
افلاطون، ارسطو کے افکار و نظریات اسی شہر میں گونج رہے تھے۔ نیز، شہر کی فضائوں میں بھی اک عجیب سا سحر تھا۔ خیر، ابتدائی پانچویں صدی عیسوی میں عیسائیوں نے یہودی اور یونانی عقلیت پرستی دونوں کے خلاف محاذ گرم، جب کہ یہودیوں کو قاتلانِ مسیحؑ قرار دے کر آنے والے دو ہزار سال تک قتلِ عام جاری رکھا اور اِن ہی حالات میں ہائی پیشیا جیسی مرتد کے قتل سے خوش ہوکر کلیسا نے بشب سرل کو سینٹ کا درجہ دے دیا، جس طرح آج ہماری عدالت نے ایک خاتون معلمہ کی تذلیل کرنے والوں کی صرف بیس ہزار روپوں میں ضمانت منظور کرلی۔
نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کن مشکلات کا شکار ہیں، سب پرعیاں ہیں۔ کم تن خواہ، اضافی ذمّےداریاں اور کوئی جاب سکیوریٹی بھی نہیں۔ اُس پرتمام دن کھڑے رہنا، بچّوں کی ایک بڑی تعداد کی مکمل ذمّے داری لینا، امتحانی نتائج، اسکول کی ساکھ پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔
کہتے ہیں ’’وقت کی کوئی قیمت نہیں، وقت اَن مول ہے۔‘‘ مگر قاتل، مقتول کا وقت ہی تولے جاتا ہے۔ ہمارے اساتذہ، جو ہمیں اپنا قیمتی وقت دیتے، اپنا تجربہ ہمارے ساتھ بانٹتے ہیں۔ ہمیں معاشرےمیں جینا سکھاتے ہیں، ہمارے روحانی والدین ہیں۔
یقین کیجیے، ہم اُن کے اِس وقت کی قیمت، اپنی زندگی دے کر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ سو، بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر دنیا وآخرت میں کام یابی وسُرخ روئی چاہتے ہیں، تو اپنے اساتذہ کو عزّت وتوقیر، بھرپور احترام دیں۔