اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا ایک جدید عالمی گائوں بن چکی ہے۔ اس گائوں میں جو سہولیات آج میسر ہیں وہ پہلے ازمنہ قدیم میں بھی شاید نہ تھیں البتہ اس عالمی گائوں کے مضافات میں ’’اٹ کھڑکا‘‘ لگا رہتا ہے۔ ہر گائوں میں کوئی نہ کوئی ایک دادا گیر بھی لازمی ہوتا ہے۔ اب دادا گیر کی جگہ ڈیڈی کہلانے والوں نے لے لی ہے، نام بدل گئے ہیں اور شاید کچھ شائستہ بھی ہوگئے ہیں لیکن کام وہی ہیں۔ ایک کا کان مروڑا تو دوسرے کی ہلہ شیری کی، ایک کو کن اکھیوں سے اشارہ کرکے دبکا لگایا تو دوسرے کو باور کرا دیا کہ تم بھی زیادہ نہ بنو، ضد چھوڑو اور ہوش کے ناخن لو۔ دادا گیر سے یاد آیا کہ نیٹو چیف مارک رُٹے پچھلے دنوں صحافیوں سے بات چیت کے دوران لہر میں آکر روانی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈیڈی کہہ گئے تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریفوں پُل باندھتے ہوئے نیٹو چیف نے انہیں عالمی مسیحا کا درجہ دے دیا تھا۔
انہوں نے یہ کاسۂ لیسی اسرائیل، ایران جنگ کے تناظر میں کی تھیں جب امریکی فضائیہ نے تہران کے جوہری مراکز کو نشانہ بنایا تھا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رطب اللسان بننے والے نیٹو چیف نے تو کاسۂ لیسی و چاپلوسی کی حد ہی کردی تھی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے بارے میں کرخت لہجہ اختیار کرنے پر نیٹو چیف نے کہا تھا کہ کبھی کبھی ’’ ڈیڈی‘‘ کو سخت زبان بھی استعمال کرنا پڑ جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے لفظ ڈیڈی استعمال کرنے پر سوشل میڈیا پر نیٹو چیف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور میمز بھی بنی تھیں، تاہم اس کی پروا نہ کرتے ہوئے انہوں نے قدرے خاموشی اختیار کی جب تنقید حد سے بڑھ گئی تو اس پر انہیں وضاحت دینا پڑ گئی کہ انکے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ان کا وہ مطلب نہیں تھا جو بتایا اور سمجھا جا رہا ہے۔
اسی تناظر میں شاید پاکستانی سیاست سے شدھ بدھ رکھنے والے نیٹو چیف مارک رُٹے نے کہا کہ ڈیڈی کا لفظ میں نے ٹرمپ کے لیے نہیں بلکہ ’’کسی اور مقصد‘‘ کے لیے استعمال کیا تھا جسے امریکی صدر سے بلا وجہ جوڑا جا رہا ہے۔ اس پر ماضی یاد آیا کہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان، بھٹو مرحوم کو پیار سے ’’ذلفی‘‘ کہتے تھے جبکہ بھٹو مرحوم جواباً فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس حوالے سے سابق بیوروکریٹ، تاریخ گو، ادیب اور ہمہ پہلو شخصیت کے حامل درویش صفت تاریخ دان اور تاریخ بنتے دیکھنے والے قدرت اللہ شہاب نے بھٹو کے بارے لکھا تھا کہ ایک دن جنرل ایوب خان نے ان سے کہا تھا کہ ’’ذرا خیال رکھنا ذلفی نام کا ایک نوجوان آئے گا، اسے مجھ سے ملوانا‘‘ بقول قدرت اللہ شہاب یہ نام ان کے لیے نیا تھا، وہ اسی سوچ میں تھے کہ یہ کون ہے؟ تو کچھ دیر بعد ایک خوبصورت نوجوان میرے آفس میں داخل ہوا۔ نوجوان نے آگے بڑھ کے ہاتھ ملاتے ہوئے کیا ’’میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں‘‘ بقول قدرت اللہ شہاب یہ وہی تھے جسے جنرل ایوب خان نے ’’ذلفی‘‘ کہا تھا پھر اس کے بعد پورے ایوان صدر میں بھٹو، بھٹو یا ذلفی ذلفی گونجنے لگا تھا۔
دوسری طرف حقیقت یہی تھی کہ تاریخ بہت سفاک ہوتی ہے اور وہی منصف بھی ہوتی ہے۔ عالمی دادا گیری کے لیے عالمی قوت ہونا بھی ضروری ہے اور سراسر دادا گیری کے لیے سیاسی قوت بھی اب سیاسی قوت بھی کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ عالمی گاؤں میں طاقت کے معیار اور پیمانے بدل گئے ہیں۔ اب اندھی طاقت ایسی کہ دکھائی بھی دے اور کوئی چوں و چراں بھی نہ کرسکے، ایسا دور آگیا ہے کہ اسرائیل انٹرنیشنل ڈیڈی کے سامنے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور اسرائیل کو مہمیز ڈالنے والے ایران کو ڈیڈی موصوف نے دیوار سے لگا دیا ہے۔ کوئی تحریری معاہدہ ہے نہ کوئی لکھت پڑھت، کوئی مذاکرات ہوئے نہ کچھ زبانی کلامی بات کرکے اسرائیل کے ڈیڈی نے ایرانی اسد کے جبڑے سے خونخوار صیہونی درندے کی گردن چھڑالی۔ عالمی عدالت انصاف ہو یا کوئی دوسرا فورم امریکہ اور اسرائیل کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہیں۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نےسات جولائی کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا، جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےان سے پر جوش مصافحہ کیا۔ ڈیڈی اور لاڈلے نیتن میں خوب گاڑھی چھنی ۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ، غزہ میں جنگ بندی کے لیے ’’دباؤ‘‘ میں شدت لا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے اس سے قبل صحافیوں کو بتایا تھا کہ نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی اور اسرائیل، غزہ جنگ صدر ٹرمپ کے لیے شروع سے ہی ایک ترجیح رہی ہے، وہ غزہ میں جاری اس ہولناک جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ترقی کے لیے قوموں نے جنگ کی بجائے ٹیکنالوجی، سائنس میں ترقی، انسانوں کی سہولت کے لیے وسائل کی فراہمی کو معیار بنایا تو دوسری طرف سر پھرے عالمی ڈیڈی آج بھی لڑائیاں کرانے اور ختم کرانے کی دادا گیری میں مصروف ہیں۔ یہ طے ہے کہ ایسے ڈیڈی کبھی نہیں چاہیں گے کہ امن ہو کیونکہ امن ترقی لاتا ہے جسے یہ جمود سمجھتے ہیں اور جنگ انتشار لاتی ہے، دنیا دہل جاتی ہے، نظام بگڑ جاتا ہے، اسلحہ ساز فیکٹریاں رات دن دولت کے انبار جمع کرتی ہیں، اسٹاک ختم کرتی ہیں، انسانوں پر مہلک اسلحہ اور ہلاکت خیز ٹیکنالوجی کی برتری اور پائیداری ثابت ہوتی ہے۔ طاقت ور ممالک مزید طاقت ور بنتے ہیں۔