• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو سال پہلے یکم جون کو نگراں دور حکومت میں روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم بعض قانونی نقائص کی وجہ سے اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے لہٰذا ذرائع کے مطابق ان نقائص کو دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بار سسٹم کا سب سے بڑا فائدہ زرمبادلہ کی بچت کی شکل میں ہوتا ہے۔اس نظام میں خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان کسی کرنسی کے نہ ہونے کے نتیجے میں بینک کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا باہمی تجارت میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی بنیاد یعنی سود کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے ۔ پچھلے عشروں میں بدترین عالمی معاشی بحران کے دور میں ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کئی ملکوں کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت کرکے اپنے ملک کو سود بازاری کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ روس، افغانستان اور ایران سے کرنسی کے بجائے مال کے بدلے مال کی بنیادپر تجارت کے فیصلے کو ماہرین معیشت کی جانب سے بالعموم سراہا گیا تھالیکن دو سال کی مدت میں بعض خامیوں کے باعث اس پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوسکا تاہم اب وفاقی حکومت نے بارٹر ٹریڈ سسٹم میں بہتری لانے کیلئے رولز میں چار اہم تبدیلیاں کی ہیں جن کے تحت اشیاء اور مصنوعات کی محدود فہرست کی پابندی ختم کی جارہی ہے اور اب امپورٹ اور ایکسپورٹ آرڈر پالیسی کے تحت ہی یہ تجارت بھی ہوگی، مشن کی جانب سے تصدیق کا عمل بھی ختم کر دیا گیا ہے ،اب کنٹریکٹ فریق کی جانب سے حلف نامہ لیا جائے گا، امپورٹ فرسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے اور بی ٹو بی کے بجائے اب کنسورشیم کے تحت بارٹر ٹریڈ ہو سکے گی۔ وزارت تجارت کی تیار کردہ سفارشات کا مسودہ اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور وزارت خارجہ کی منظوری کے بعد عمل میں آجائے گا اور چاروں ملک زرمبادلہ کے خرچ کے بغیر تجارت کرسکیں گے اور اس نظام کے مثبت نتائج سے مستفید ہونگے۔

تازہ ترین