افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان تعلقات نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں بلکہ خطے کے امن اور استحکام کیلئے بھی ایک مستقل چیلنج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اُن کیساتھ تعلقات بہتر بنانیکی بھرپور کوشش کی، انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی اور بین الاقوامی دباؤ سے بچانے کی کوشش کی، لیکن بدلے میں جو ردعمل سامنے آیا وہ نہایت مایوس کن ہے۔ خاص طور پر افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کا دوبارہ منظم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان حکومت یا تو ان شدت پسند عناصر کیخلاف کارروائی نہیں کر رہی، یا ان سے نظریاتی ہمدردی رکھتی ہے، یا پھر انہیں خاموشی سے تعاون فراہم کر رہی ہے۔ٹی ٹی پی ایک ایسی تنظیم ہے جو پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو مسترد کرتی ہے اور ریاستی اداروں کیخلاف کھلی مسلح بغاوت کی مرتکب رہی ہے۔ ماضی میں اس تنظیم نے اسکولوں، مساجد، بازاروں اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا، ہزاروں پاکستانی شہری اور اہلکار ان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ پاکستان نے کئی برس کی مسلسل عسکری کارروائیوں کے ذریعے انکے ٹھکانے تباہ کیے اور انکے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی کوشش کی، جسکے بعد ان کے بیشتر جنگجو افغانستان منتقل ہو گئے۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں طالبان قوت حاصل کر رہے تھے، اور جب 2021ءمیں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو اس کے بعد ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں ایک بار پھر شدت آ گئی۔ اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجو نہ صرف افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں بلکہ وہ وہاں منظم انداز میں تربیت حاصل کر رہے ہیں، دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔پاکستان نے متعدد بار سفارتی ذرائع سے افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کریں، یہاں تک کہ پاکستان نے بعض اوقات سرحد پار سے حملوں کے جواب میں عسکری کارروائیاں بھی کیں، لیکن طالبان حکومت کی طرف سے اس پر سنجیدہ ردعمل یا اصلاح کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان نظریاتی قربت ہے۔ دونوں گروہ جمہوریت، آئینی ریاست اور جدید ریاستی نظام کے خلاف ہیں۔ دونوں شریعت کے ایک مخصوص شدت پسندانہ تصور پر یقین رکھتے ہیں اور ریاستی نظام کو بزورِ طاقت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی نظریاتی ہم آہنگی دونوں کے درمیان تعاون کا باعث بنی ہے۔ اگرچہ افغان طالبان نے بظاہر ٹی ٹی پی کو کارروائیاں نہ کرنے کی ہدایت دی ہے، لیکن یہ ہدایات نہ تو مؤثر ثابت ہوئیں اور نہ ہی ان پر عملدرآمد کرایا جا سکا۔
پاکستان کے لیے اس وقت ایک طرف افغان طالبان حکومت سے تعلقات کو قائم رکھنا ایک مجبوری ہے، تاکہ سرحدی استحکام اور تجارتی روابط متاثر نہ ہوں، تو دوسری طرف انہی کے زیرِ سایہ ٹی ٹی پی جیسے خطرناک عناصر کی پاکستان کے خلاف کارروائیاں ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کو الجھاؤ کا شکار کر رہا ہے بلکہ پاکستانی عوام میں بھی اس حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب ٹی ٹی پی کے حملوں میں سیکورٹی اہلکار اور عام شہری شہید ہوتے ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو تعاون کا فائدہ دینے والا پاکستان آخر کب تک ان کی خاموشی کا خمیازہ بھگتتا رہے گا؟
پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے پر دو سطحی حکمت عملی اپنائے۔ ایک طرف بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان کے وعدوں کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرے، اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے یا اس میں شریک ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو اپنی سیکورٹی پالیسی پر بھی ازسرِ نو غور کرنا ہوگا، خاص طور پر قبائلی علاقوں میں دوبارہ امن و امان قائم رکھنے، سرحدی نگرانی کو بہتر بنانے اور انٹیلی جنس نظام کو مضبوط کرنیکی ضرورت ہے۔اس وقت خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی طور پر صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ اگر افغانستان سے دہشت گردی برآمد ہوتی رہی، تو اس کا اثر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک جائے گا۔ افغان طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ایک ذمے دار حکومت کے طور پر دنیا میں اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین پر موجود شدت پسندوں کیخلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ نظریاتی ہمدردی کو ریاستی مفاد پر ترجیح دینا نہ صرف خود افغانستان کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ پاکستان کے ساتھ انکے تعلقات کو مکمل طور پر تباہ کر سکتا ہے۔افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان موجود یہ سہولت کاری کا رشتہ اگر فوری طور پر ختم نہ کیا گیا، تو پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے، جس کا براہِ راست اثر نہ صرف ملکی استحکام پر ہوگا بلکہ معیشت، خارجہ پالیسی، عوامی اعتماد اور علاقائی تعلقات بھی متاثر ہونگے۔ طالبان حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور اُسکی سرزمین پر حملہ دراصل دوستی، اسلامی بھائی چارے اور ہمسائیگی کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر افغان طالبان واقعی برادر ملک ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تو اب انکے پاس وقت بہت کم ہے۔ انہیں یا تو عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امن کے داعی ہیں، یا پھر پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے وہ راستہ اختیار کرنا ہوگا جو سخت ہونے کے ساتھ ناگزیر بھی ہے۔