اگر بہادری کا کوئی نوبل انعام ہوتا تو بانو کے قدموں میں ہوتا۔
بہادری کی بڑی داستانیں سنیں، جوانمردی کے بہت قصے پڑھے مگر جو تاریخ بلوچستان کی بیٹی نے رقم کی ہے اُسکی مثال ملنا ممکن نہیں۔ موت آنکھوں کے سامنے ہو تو بندہ ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، مگر سلام ہے اُس بلوچ لڑکی کو جس نے نامردوں کے گروہ سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے پوری آن اور آبرو کے ساتھ موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی۔ یہ لڑکی جسکا نام بانو بتایا جا رہا ہے بلوچ قبائلی جرگے کی فرسودہ اور غیر اسلامی روایات کا شکار ہوئی۔ بانو اب اِس دنیا میں واپس نہیں آ سکتی مگر دو کام ایسے کئے جا سکتے ہیں جسکے بعد اِس ملک میں کوئی اور لڑکی اِس درندگی کا شکار نہیں ہوگی۔ درندگی لفظ یہاں کس قدر بے معنی لگ رہا ہے، درندے تو محاورتاً بدنام ہیں، اصل میں تو یہ انسان ہیں جنہوں نے اِس دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے۔
پہلا کام ہے مجرمان کو سزا دینا، تادمِ تحریر بیس لوگ گرفتار ہو چکے ہیں جن میں قبائلی سردار بھی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں، یہ ایک ٹیسٹ کیس ہونا چاہئے، ہر وہ شخص جو جرگے میں بیٹھا، جس نے اِس قتل کے فیصلے میں حصہ لیا، اُس گاڑی کا ڈرائیور جس میں بیٹھ کر یہ تمام لوگ صحرا میں پہنچے، وہ شخص جس نے وہ اسلحہ بیچا جس سے قتل ہوا اور وہ تمام لوگ جو اِس بہیمانہ قتل کا جواز فراہم کر رہے ہیں اور حیلے بہانوں سے نام نہاد قبائلی روایات کا دفاع کر رہے ہیں، وہ سب اُس لڑکے اور لڑکی کے مشترکہ قاتل ہیں، اِن سب کو نہ صرف گرفتار ہونا چاہئے بلکہ اِنکے اثاثے منجمد ہونے چاہئیں، اِنکے بینک اکاؤنٹ بند ہونے چاہئیں اور اِن سب کو تاحیات کال کوٹھڑی میں رکھنا چاہئے تب شاید انہیں اُس بات کا احساس ہو کہ بے غیرت بانو نہیں بلکہ بےغیرت وہ تھے جنہوں نے ایک نہتی عورت پر گولیاں چلائیں۔ دوسرا کرنیکا کام یہ ہے کہ بانو کی ایک یادگار تعمیر کی جائے، نہایت عزت و تکریم کیساتھ اُسکی دوبارہ تدفین کی جائے، بلوچستان میں اُسکے نام سے کوئی شاہراہ یا کوئی جگہ منسوب کی جائے۔ بے شک یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ہم اُن دونوں کو اِس دنیا میں واپس نہیں لا سکتے جو قبائلی جاہلیت کا شکار ہوئے مگر اِن اقدامات کے بعد یہ امید ضرور کی جا سکتی ہے کہ آئندہ کسی عورت کیساتھ ایسی بربریت کا مظاہرہ نہیں کیا جائیگا۔ بظاہر میری وِش لِسٹ ناقابل عمل ہے مگر ایسی غیر حقیقی بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کافی متحرک ہیں، آر اے شہزاد نام ہے، ڈنمارک میں ہوتے ہیں، انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کے ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے جو ۲۰۰۵ میں ڈنمارک میں ہوا، انٹرنیٹ پر اِس مقدے کی تفصیل موجود ہے جو دل ہلا دینے والی ہے۔یہ غزالہ کی کہانی ہے جو ڈنمارک میں ہوئی، ماں باپ کا تعلق پنجاب سے تھا مگر لڑکی یورپ میں پلی بڑھی۔ جوان ہوئی تو اُس نے پاکستانی نژاد ڈینش شہری ایمال خان سے شادی کا فیصلہ کیا، ایک تولڑکا خاندان سے باہر کا تھا اور دوسرے لڑکی نے اپنی مرضی کرنیکی جرات کی تھی سو یہ بات والدین کی غیرت نے گوارا نہیں کی۔ غزالہ اور ایمال خان، دونوں عاقل و بالغ تھے سو انہوں نے شادی کر لی۔ غزالہ کے باپ غلام عباس نے بیٹی کا یہ گناہ معاف نہیں کیا، اُس نے بیٹے، بھائیوں، بہنوئیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کو قتل کرنیکا منصوبہ بنایا تاکہ خاندان میں اُسکی کھوئی ہوئی غیرت بحال ہو سکے۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۰۵ کو انہوں نے غزالہ اور اُس کے شوہر ایمال خان کو صلح کا جھانسہ دے کر Slagelse اسٹیشن بلایا، غزالہ کو گمان تک نہیں تھا کہ اُس کا اپنا باپ اسے قتل کی نیت سے بلا رہا ہے، جب وہ اپنے شوہر کیساتھ وہاں پہنچی تو اُسکے سگے بھائی اختر عباس نے پستول نکالا اور اپنی بہن کو گولیاں مار دیں، اٹھارہ سال کی غزالہ موقع پر ہی دم توڑ گئی، ایمال خان بھی زخمی ہوا مگر بچ گیا۔ پورے ڈنمارک میں گویا زلزلہ آگیا، ڈینش عوام سکتے میں آگئے، ہاہا کار مچ گئی۔ پولیس نے تفتیش شروع کی، چُن چُن کر مجرمان کو گرفتار کیا اور ایسا ٹھوس مقدمہ بنایا کہ ایک بھی مجرم بچ نہ سکے۔ عدالت میں مقدمہ چلا، گواہان پیش ہوئے، ہر گواہ کو جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی اور یہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً بھی ہوا، اِس پورے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈنمارک کی عدالت نے ایک ہی خاندان کے نو افراد کو قتل، سازش اور معاونت کے الزام میں سزا دی۔ ذرا سزاؤں کی تفصیل ملاحظہ ہو: والد غلام عباس کو قتل کا منصوبہ بنانے کے جرم میں عمر قید کی سزا، بڑے بھائی اختر عباس کو قتل کی واردات کے مرکزی مجرم کے طور پر عمر قید کی سزا، چچا اصغر علی کو ۱۶ سال کی سزا اِس جرم کی پاداش میں ہوئی کہ اگرچہ اِس نے فائرنگ نہیں کی مگر قتل کی منصوبہ بندی میں شامل رہا اور خاندان کے دیگر افراد کو منظم کرنے میں فعال کردار ادا کیا، ماموں محمد گلزار کا جرم یہ ثابت ہوا کہ اُس نے غزالہ کو صلح کے بہانے اسٹیشن آنے پر راضی کیا اور یوں منصوبے میں عملاً شامل ہوا لہذا ۱۶ سال قید حصے میں آئی، طارق محمود اِس خاندان کا دوست تھا جس نے قتل کے دن مجرموں کو اسٹیشن پہنچانے، فون کالز کے ذریعے ہدایات دینے اور واردات کے بعد واپسی کے انتظامات میں مدد دی لہٰذا معاونت ثابت ہوئی اور ۱۶ سال کی جیل نصیب ہوئی، نعیم خان بھی عزیز تھا جو موقع واردات پر موجود تھا اور مجرموں کو معلومات اور سہولت فراہم کرتا رہا لہٰذا اسے ۱۴ سال قید ملی، ڈرائیور غلام احمد جو قتل کی رات مجرمان کو گاڑی میں لیکر گیا اسے بھی ۱۴ سال قید ہوئی، اظہر اقبال کزن تھا جو قتل کے وقت موجود تھا اور سہولت کار تھا اسے ۱۴ سال سزا ہوئی،والدہ یاسمین عباس کو ۱۶ سال سزا ہوئی کیونکہ اُس نے پورے منصوبے کی حمایت کی۔ یہ ہے وہ انصاف جو بلوچستان کی بانو کو ملنا چاہیے، اِس سے کم اگر کچھ ہوا تو اُسکی روح بلوچستان کے صحراؤں اور پہاڑوں میں بھٹکتی رہے گی اور ہم سے پوچھتی رہے گی کہ کیا پچیس کروڑ انسانوں کا ملک اِس قابل بھی نہیں تھا کہ بیس قاتلوں اور اُنکے سہولت کاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک سکے۔
اگر بہادری کا کوئی نوبل انعام ہوتا تو بانو کے قدموں میں ہوتا۔