برادر مکرم تاریخ پر قلم اٹھاتے ہیں تو اسپ خیال کی باگ ڈھیلی کر کے سرسبز وادیاں، محو خرام دریا اور اونچی نیچی گھاٹیاں یوں بے کھٹکے پار کر جاتے ہیں کہ پڑھنے والی آنکھ کو رشک آ لیتا ہے۔ خیال اور بیان پر ایسا عبور اور اس زمانے میں۔ ناصر کاظمی یاد آتے ہیں۔ ’برگ نے‘ کا پہلا حصہ بٹوارے کا شہر آشوب ہے۔ اس ترکش کی ایک کٹیلی غزل سے داغ دل کا بیان مستعار لیتا ہوں۔ ناصر نے لکھا، ’زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے‘ اور پھر وہ جگر پاش شعر کہا، ’پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں / چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے‘۔ آج برادر عزیز نے ’امریکی یاترا سب کچھ بدل دیتی ہے‘ کے عنوان سے ایک مبسوط کالم لکھا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ’پاکستان کے ہرحکمران، صدر، وزیراعظم اور فوجی سربراہوں کی امریکی یاترا اور امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ملک کی خارجہ اور اندرونی پالیسی میں حیرت ناک تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ‘ قبلہ گاہی کے مشاہدات سے اختلاف نہیں، سخن گسترانہ نکتہ محض یہ ہے کہ ایسے تمام دوروں اور ملاقاتوں کی کامیابی یا ناکامی پاکستان میں اقتدار اور اختیار کی داخلی حرکیات کے تابع رہی ہے۔ مثلاً سہیل صاحب کی رائے ہے کہ مئی 1950ء میں لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے بعد پاکستان امریکی کیمپ میں چلا گیا۔ اس رائے کا پس منظر دلچسپ ہے۔ روس نے ایران میں پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کے ذریعے پاکستانی وزیراعظم کو دورے کی دعوت دی تھی۔ تب امریکا انڈونیشیا اور بھارت کو اپنے کیمپ میں لانے کا متمنی تھا۔ اس ضمن میں Michael James Lacey کی کتاب The Truman Presidency دیکھیے۔ اکتوبر 1949ء میں پنڈت نہرو کا امریکا کا دورہ امریکی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ امریکا میں ایک سرکاری حلقے کی رائے تھی کہ روس کے جنوبی دہانے پر واقع پاکستان فوجی اڈوں نیز مشرق وسطیٰ میں تیل کے مفادات کی حفاظت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت سے مایوسی کے بعد عجلت میں لیاقت علی خان کو مدعو کیا گیا۔ لیاقت علی کا قریبی حلقہ امریکا نواز تھا۔ لیاقت علی خان داخلی سیاسی مشکلات کا شکار تھے۔ اس دورے سے حقیقی فائدہ غلام محمد اور ایوب خاں نے اٹھایا۔ غلام محمد ستمبر 1951ء میں امریکیوں کو اپنے تعاون کا یقین دلا رہے تھے گویا انہیں معلوم تھا کہ لیاقت علی خان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ 13 فروری 1953ء کو ایوب خان کراچی میں امریکی سفارت خانے کو کھلے لفظوں میں بتا رہے تھے کہ فوج موقع ملتے ہی اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔ برادرم کی یہ رائے تاریخی طور پر درست نہیں کہ 1956ء کا دستور متفقہ تھا۔ 80 ارکان کے ایوان میں 21 ارکان نے دستور پر دستخط نہیں کیے۔ ایوب خان کی امریکا نوازی خارجہ امور میں ان کی سادہ لوحی کا نمونہ تھی۔ ستمبر 65ء کی لڑائی میں امریکی رویے سے ان کی آنکھیں کھل گئیں لیکن ان کا حقیقی اقتدار اپنا نامیاتی دائرہ مکمل کر چکا تھا۔ یحییٰ خان کو غلط فہمی تھی کہ ہنری کسنجر کو چین کے خفیہ دورے میں سہولت فراہم کر کے انہوں نے اپنے طویل اقتدار کی ضمانت حاصل کر لی ہے کیونکہ امریکا مشرقی پاکستان کے حالات سے بے نیاز رہے گا۔ یحییٰ خان تو خود اپنے عسکری ساتھیوں کے عزائم سے بے خبر تھے جو اکتوبر 1971ء میں پیکنگ میں بیٹھ کر پاکستان کا آئندہ نقشہ طے کر چکے تھے۔ اقتدار کی چوٹی پر تنہائی کا خوفناک سناٹا پایا جاتا ہے۔بھٹو صاحب کے بارے میں امریکی خیالات جاننا ہوں تو 9دسمبر 1971ء کو نکسن اور کسنجر کی گفتگو دیکھئے جو مخصوص امریکی مغلظات سے مرصع ہے۔ اسکے باوجود 19دسمبر کو پاکستان آنے سے پہلے بھٹو نے نکسن سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے بارے میں امریکی مخالف ہونے کا تاثر غلط ہے۔ تاہم نکسن اور کسنجر جانتے تھے کہ بھٹو صاحب کی حکومت پاکستانی تاریخ میں عارضی پڑائو ہے۔ یہ سمجھنا کہ کسنجر نے بھٹو صاحب کو 1976ء میں ایٹمی پروگرام پر ’خوفناک مثال‘ بنانے کی دھمکی دی تھی، محض ایک فکشن ہے۔ یہ کہانی بینظیر بھٹو نے 1994ء میں امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تخلیق کی تھی۔ 10جون 1977ء کو بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے محض یہ کہا تھا کہ ستمبر 1976ء میں کسنجر نے انہیں آئندہ امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ کامیابی کی صورت میں ’شدید مشکلات‘ پیش آنے سے خبردار کیا تھا۔ 80ء کی دہائی میں امریکا سے تعلقات میں ضیا الحق کی کامیابی کا راز افغان جہاد سے منسلک تھا۔ اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط سے محمد خان جونیجو کے ہاتھ کیا مضبوط ہونا تھے۔ انہیں سندھڑی اور ضیا الحق کو بستی لال کمال جانا پڑا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے 1989ء میں امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا لیکن وہ اسلم بیگ اور غلام اسحاق کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔ نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور شوکت عزیز کے امریکی دورے بھی بار آور نہیں ہو سکے۔ بنیادی وجہ یہ کہ یہ رہنما پاکستان میں حقیقی اقتدار کے سرچشمے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ جولائی 2019ء میں عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کو ’ورلڈ کپ‘ جیتنے جیسی کامیابی قرار دیا تھا لیکن ٹرمپ نے اپنی کتاب میں عمران خان کو محض ’کرکٹ کا کھلاڑی‘ قرار دیا ہے۔ پنٹاگون میں انیس توپوں کی سلامی تو جنرل قمر باجوہ کے حصے میں آئی۔ ان دنوں پاکستان میں اچھی امیدوں کا موسم چل رہا ہے۔ وائٹ ہائوس کے ظہرانے میں شریک فوج کے سربراہ، قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر داخلہ پاکستان میں اختیار کی صف بندی میں ایک ہی لکیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ رواں برس مئی کے واقعات نے علاقائی صورتحال میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے۔ تاہم اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستان میں داخلی سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا دروازہ کھلنے کو ہے تو جان لیجیے کہ امریکا ایک عالمی طاقت ہے اور پاکستان کمزور معیشت اور غیر مستحکم سیاسی بندوبست سے گزر رہا ہے۔
شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد