• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ کے پانی کی منصفانہ تقسیم کیسے؟

میں اپنے اب تک کے کالموں میں کافی حقائق پیش کرچکا ہوں کہ کس طرح انگریز دور حکومت میں دریائے سندھ کے پانی سے سندھ کو زیادہ سے زیادہ محروم رکھا جاتا تھا حالانکہ انگریز حکومت نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور وقت بہ وقت اس سلسلے میں کمیشن اور دیگر کمیٹیاں قائم کی جاتی تھیں مگر ان اکثر کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپورٹ ظاہر نہیں کی جاتی تھی جبکہ پاکستان بننے کے بعد یہ ناانصافی مزید بڑھ گئی ۔ اس وقت بھی ہمارے بڑے صوبے اور مرکز کی طرف سے مزید کینال اور مزید ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ اس مرحلے پر میں خاص طور پر اس بات کا ذکر کروں گا کہ پاکستان مسلمان ملک ہے لہذا میں اس مرحلے پر اس ایشو پر کچھ اہم اسلامی احکامات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ایک بار میری سندھ کے کچھ علماء سے بات چیت ہوئی تو انہوں نےبتایا کہ بعض روایت کے مطابق مدینے پاک کے نزدیک ایک کینال کے پانی پر ایک یہودی آباد گار اور مسلمان آباد گار کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا‘ یہودی آباد گار اس کینال کے اوپر والے حصے سے پانی لیتے تھے اور مسلمان آباد گار اس کینال کے آخری حصے End میں پانی حاصل کرتا تھا‘ مسلمان آباد گار کو شکایت تھی کینال کا سارا پانی یہودی آباد گار لے جاتا ہے اور اس کیلئے فصل اگانے اور دیگر ضروریات کیلئے پانی نہیں ہوتا‘ ان کا تنازعہ اتنا بڑھا کہ دونوں ہمارے پیغمبر حضرت محمدؐ کے پاس شکایت لیکر پہنچ گئے۔ حضور اکرمؐ نے ان دونوں کی شکایات سنیں اور حضوراکرمؐ ان دونوں کے علاقوں میں گئے اور وہاں جائزہ بھی لیا اور اس کے بعد حضور اکرمؐ نے فیصلہ دیا کہ اس کینال کے پانی پر پہلا حق آخری کونے والا کا ہے۔یہ فیصلہ تو ہمارے پیغمبرؐ کا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ساری دنیا میں دریا اور کینال ایک سے زیادہ ملکوں اور علاقوں سے گزرتے ہیں وہاں بھی اسی اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ کسی علاقے سے ناانصافی نہ ہو مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سندھ کے ساتھ اس سلسلے میں کبھی بھی انصاف نہیں کیا گیا‘ اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت نے ایک بارپھر ایک نیا ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کئی کینالوں کی تعمیر کا کام چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نئے فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ انگریز دور حکومت میں جب ان کینالوں کی تعمیر کے بارے میں سندھ اور پنجاب میں تنازعہ ہوا تو انگریز حکومت نے کئی کمیشن اور کمیٹیاں قائم کیں مگر ان میں اکثر کی رپورٹیں آج تک ظاہر نہیں کی گئیں‘ ان میں سے کچھ کی مثال یہاں دے رہا ہوں۔ مثال کے طور پر سن 1920 ء میں جب ستلج ویلی اور سکھر بیراج کے پراجیکٹس زیر غور تھے تو کچھ حلقوں کی طرف سے شکوک ظاہر کئے گئے کہ ان پراجیکٹس کے لئے پانی کی فراہمی مطلوبہ مقدار میں نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں بہاولپور کی ریاست نے احتجاج کیا کہ غیر دریائی علاقوں کو پانی فراہم کرنے کا پروگرام تیار کیا گیا ہے تاہم اس وقت کی ہندوستان کی حکومت نے پنجاب‘ بہاولپور اور بیکانیر کی ریاستوں کو ایک اجتماعی معاہدہ دستخط کرنے پر راضی کیا جسے "Sutlaj valley tripartate agreement 1920" کہا جاتا ہے مگر اس معاہدے سے سکھر بیراج کے پراجیکٹس کو خارج کردیا گیا‘ یہ کیوں کیا گیا؟ اس کی آج تک وضاحت نہیں کی گئی‘ بعد میں جب ستلج ویلی پراجیکٹس نے کام شروع کیا تو یہ نوٹ کیا گیا کہ خاص طور پر ابتدائی خریف میں دریا میںجو پانی آتا تھا وہ مطلوبہ مقدار سے کم تھا لہٰذا اس معاملے کی تحقیقات کرنے کیلئے 1932ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی‘ بعد میں 1935ء میں اینڈرسن کمیٹی قائم کی گئی تاکہ ستلج ویلی کے پراجیکٹ‘ سکھر بیراج کے پراجیکٹ اور جو دوسرے پراجیکٹ پنجاب حکومت نے تجویز کیے ہیں ان کو پانی کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے‘ بعد میں 1939ء میں حکومت سندھ نے سندھ کی سیلابی پانی پر چلنے والی کینالوں اور سکھر بیراج پر پنجاب کے پراجیکٹس پر نظر آنیوالے منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب کے خلاف شکایت ریکارڈ کرائی‘ اس کے بعد رائو کمیشن قائم کی گیا جس نے 1942ء میں اپنی سفارشات پیش کیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک ان کمیشنوں اور کمیٹیوں نے کیا فیصلے کئے یا کیا سفارشات کیں وہ ظاہر نہیں کی گئیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی سندھ کیساتھ یہ صورتحال برقرار ہے‘ سن 1968ء میں سابق مغربی پاکستان کے گورنر نے جناب اختر حسین کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی بنائی تاکہ وہ پانی کی مقدار مخصوص کرنے کے علاوہ اس پانی کے نرخ کا بھی تعین کرے‘ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ یکم جولائی 1970ء کو پیش کی تو اس وقت صوبے بحال کردیئے گئے‘ پھر اس رپورٹ پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ اس کے نتیجے میں ایک نئی کمیٹی جسٹس فضل اکبر کی سربراہی میں 1970 ء میں تشکیل دی گئی کہ دریائے سندھ اور اس کی شاخوں کیلئے پانی کی تقسیم کے بارے میں سفارشات دیں‘ اس کمیٹی نے 1971ء میں اپنی رپورٹ پیش کر دی، اسی عرصے کے دوران صوبوں میں چشمہ بیراج اور بعد میں تربیلا کے پانی کی تقسیم کرنے کا حکم جاری کیا گیا جبکہ فضل اکبر کمیٹی کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا گیا اور حکومت پاکستان کے احکامات کے تحت پانی ایڈہاک بنیادوں پر تقسیم ہوتا رہا۔

تازہ ترین