ڈاکٹر طاہر نقوی (صدر، اُردو بیٹھک، برطانیہ)
جنوری کی ایک سرد شام، ہم چاروں سیّاح دوست برمنگھم میں بیٹھے اپنے نئے سفر کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ پہلا سوال یہ سامنے آیا کہ اگلا سفر کہاں کا ہو؟ ’’بھائی پھیرو کا۔‘‘ مبشر زیدی نے یک دم جوش سے جواب دیا۔ ’’بھائی پھیرو؟‘‘ ارشد خان نے حیرت سے پوچھا۔ ’’وہاں کیا رکھا ہے؟‘‘ مبشر زیدی نے وضاحت کی۔ ’’بھائی! پھیرو نہیں، پیرو! جہاں ماچو پیچو ہے۔‘‘ ماچو پیچو کا نام سُنتے ہی دل چسپی کی لہر دوڑگئی۔
مبشر نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ ’’ایک تنظیم N7W نے 2001ء میں ’’دنیا کے سات جدید عجائبات‘‘ کے انتخاب کے لیے عالمی سطح پر رائے شماری شروع کی۔2007ءمیں نتائج کا اعلان ہوا، تو ماچوپیچو کو اُن سات عجائبات میں شامل کیا گیا۔اور ہم چوں کہ پہلے ہی اُن سات عجائبات میں سے چار کی سیر کرچکے ہیں، توکیوں نہ پانچواں بھی دیکھ لیا جائے؟‘‘
مَیں اور ارشد تو فوراً متفق ہوگئے، البتہ تجلّی نقوی نے مصروفیات کی بِنا پر معذرت کرلی۔خیر، فلائٹس کی بکنگ، ہوٹل اور اپارٹمنٹس کی تلاش، موسم کی پیش گوئی، حلال ریسٹورنٹس کی فہرست اور منزلِ مقصود کےحوالے سے ضروری معلومات حاصل کرنے کے مراحل رفتہ رفتہ طے ہونے لگے، تو ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ لندن سے لیما (پیرو کا دارالحکومت) کے لیے کوئی براہِ راست پرواز دست یاب نہیں۔ لہٰذا ہم نے جو فلائٹ منتخب کی، وہ اسپین کے شہر میڈرڈ سے تھی، جہاں سے لیما کی جانب روانگی ممکن تھی۔
دس مئی کی صبح، سورج کی پہلی کرن کے نمودارہونے سے قبل ہی ہم اپنے دوست، ڈاکٹر ارشد خان کو اُن کے گھر سے لے کر لندن گیٹوک ائرپورٹ کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے بھر ماچوپیچو کی تصویری جھلکیاں دیکھتے اور پیرو کی مہمّاتی فضاؤں اور سفری منصوبے سے متعلق پُرجوش گفتگو کے دوران سفر کا پتا ہی نہیں چلا اور ہم گیٹوک ائرپورٹ پہنچ گئے اور گاڑی ائرپورٹ کے طویل دورانیے کی پارکنگ میں کھڑی کرکے ڈاکٹر مبشر زیدی کا انتظار کرنے لگے، جو سالزبری سے بذریعہ ٹرین پہنچنے والے تھے۔
کچھ ہی دیر میں وہ ہم سے آملے، تو ناشتے کےفوراً بعد ہی سب جہاز میں سوار ہوگئے۔ میڈرڈ کی پرواز نے تقریباً دو گھنٹے میں ہمیں میڈرڈ پہنچادیا۔ وسیع رقبے پر پھیلے میڈرڈ کے ہوائی اڈے کے امیگریشن کاؤنٹر سے فراغت اور سامان کی وصولی کے بعد ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہی سردہواؤں کے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ میڈرڈ اسپین کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ مُلک کے وسط میں واقع اور ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ایک اہم مرکز ہے۔
میڈرڈ میں ہم نے ڈیڑھ دن گزارا، مقامی کھانوں کا ذائقہ چکھا، تاریخی مقامات کی سیر کی اور اگلی طویل پرواز کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا۔ اور پھربالآخر وہ گھڑی آن پہنچی، جب رات تقریباً بارہ بجے ہم میڈرڈ ائرپورٹ سے پیرو کے دارالحکومت لیما کے لیے روانہ ہوئے۔
دس ہزار کلومیٹر کا طویل سفر، جو تقریباً گیارہ گھنٹوں پر محیط تھا، ہوائی جہاز کے پُرسکون ماحول میں دھیرے دھیرے کٹتا رہا۔ کبھی نیند، کبھی موویزاور کبھی خوابوں میں ماچو پیچو۔ آخرکار، صبح ساڑھے چار بجے ( اسپین اور پیرو کے وقت میں سات گھنٹے کا فرق ہے) جب ہم لیما کے ائرپورٹ پر اُترے، تو ایک نئی سرزمین کی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔
لیما میں پہلا دن، شیرٹن کی شرارت: صبح ساڑھےچاربجے ائرپورٹ سے ہم سیدھے اپنے قیام کے مقام، شیرٹن ہوٹل روانہ ہوئے۔ لندن سے روانہ ہونے سے قبل ہوٹل انتظامیہ کو ہم صبح پانچ بجے اپنی آمد کی پیشگی اطلاع دے چکے تھے، تاکہ چیک اِن میں کوئی دقّت نہ ہو۔ مگر وہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ ہماری پیشگی اطلاع کا کوئی ریکارڈ ہوٹل کے سسٹم میں موجود ہی نہیں۔ ہم تھکے ہارے تھے، بحث کی تاب نہ تھی، اس لیے مکمل دن کا کرایہ ادا کر کے کمرے کی چابی حاصل کی۔ کمرا ہوٹل کی انیسویں منزل پرتھا۔
بلاشبہ، شیرٹن ایک بہترین، جدید پنج ستارہ ہوٹل ثابت ہوا۔ طویل فلائٹ، نیند کی کمی اور بھوک نے ہمیں بےحال کر رکھا تھا۔ ظالم شیرٹن ہوٹل والوں نے بوفےناشتا الگ سے فی فرد پندرہ پاؤنڈ میں پیش کیا۔ گویا پانچ ستاروں کے ساتھ پانچ گنا منہگائی بھی۔ مگر ہم بھی کسی سے کم نہ تھے، بھر پور ناشتا کیا اور شام تک کے لیے پیٹ کا ٹینک فُل کرلیا۔ تھکن رفتہ رفتہ کم ہوئی، تو دوپہر تک تازہ دم ہوگئے۔ پیرو کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات بھی حاصل ہوئیں۔ یہاں کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ، جب کہ دارالحکومت لیما کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔
کرنسی سول (SOL )ہے، جو ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے ساڑھے چارملتے ہیں۔ پیرو ،اپنی قدرتی، تاریخی اور تہذیبی خصوصیات کے باعث دنیا بھر کے سیّاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ ایمیزون کے جنگلات، اینڈیز کے پہاڑ اور قدیم ’’انکا تہذیب‘‘ کے آثار اسے دنیا کے سیّاحتی نقشے پر انوکھا مقام عطا کرتے ہیں۔
پیرو کی سیّاحتی مقامات کی اہمیت، سیّاحوں کی دل چسپی اور آمدنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف 2019ء میں تقریباً تینتالیس لاکھ سیّاحوں نے یہاں کا رُخ کیا، جس کے نتیجے میں مُلک کو پانچ بلین ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوئی۔
میرا فلوریس اور بلّی پارک کا قصّہ: کچھ دیر آرام کے بعد شام ڈھلنے سے قبل لیما کے جدید، خوش نما اور سیّاح دوست علاقے میرا فلوریس جاپہنچے۔ یہاں کی فضا میں ایک خاص طرح کی تازگی اور زندگی ہے۔ صاف ستھری سڑکیں، درختوں کی قطاریں اور سمندر کی خنک ہوا۔ فلوریس میں پیرو ہاپ (Peru Hop) نامی کمپنی کی جانب سے فری واکنگ ٹورکے لیے پہلے ہی رجسٹریشن کرواچکے تھے۔ یہ کمپنی روزانہ سیّاحوں کو مقامی گائیڈز کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی مقامات کی مفت سیر کرواتی ہے۔
ہماری گائیڈ، جیم نامی خاتون تھیں، جنہوں نے ٹور کا آغاز کینیڈی پارک سے (جسے مقامی طور پر ’’کیٹ پارک‘‘ بھی کہا جاتا ہے) کیا۔ جیم نے بتایا کہ ’’انکا تہذیب‘‘ کے علاقوں میں ہر گھر کی چھت پر ایک بلّی رکھی جاتی تھی اور بلّی کا رنگ، اُس گھرکی پہلی بیٹی کی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ حیثیت کو ظاہر کرتا تھا۔ نیلے رنگ کی بلّی کا مطلب ہوتا تھا کہ بڑی بیٹی غیرشادی شدہ ہے۔ اسی نشان دہی کے لیے پارک میں ایک نیلی بلّی کا مجسّمہ بھی نصب ہے۔
اس واکنگ ٹور میں ہم تین پاکستانیوں کے ساتھ جاپانی، امریکی، برازیلی، کولمبین، بھارتی اور ساؤتھ کوریا سے تعلق رکھنے والے سیّاح شامل تھے۔ ٹورکے دوران ایک دل چسپ لمحہ تب آیا، جب ہنستی مسکراتی آگے آگے چلنے والی ہماری گائیڈ، جم یک دم مُڑیں اور مبشربھائی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے سلیس اردو میں بولیں۔’’مجھ سے دوستی کروگے؟‘‘ یہ جملہ سن کر ہمیں لگا کہ ہم پیرو کے سفر سے اچانک تارڑ صاحب کے رومانی ’’سفر نانے‘‘ میں داخل ہوگئے ہیں۔
سب ہنس پڑے، لیکن پھر جیم نے وضاحت کی کہ وہ فلمیں بہت شوق سے دیکھتی ہیں، خاص طور پر اردو، ہندی فلمیں، ہسپانوی ترجمے کے ساتھ دیکھتی ہیں۔ سیّاحوں کے لیے ہر زبان میں چند دل چسپ جملے یاد رکھنا، اس کا شوق ہے۔ اور مبشر بھائی خوش قسمت نکلے کہ ان پر اردو کا وار کیا گیا۔ ہم نےجیم کی معلوماتی گفتگو کے ساتھ میرا فلوریس کی خُوب صُورت گلیوں کی بھرپور سیر کے دوران مقامی پیکارونوس (ایک قسم کی میٹھی ڈش) کے علاوہ مقامی مشروب، چیچا مورادابھی نوش کیا۔ مشروب نوشِ جاں کرتے کرتے ہم کینیڈی پارک سے ہوتےخُوب صُورت اور سرسبز لو (Love) پارک تک جاپہنچے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے، جہاں محبّت، تاریخ اور خُوب صُورتی ایک ساتھ جلوہ گرہوتے ہیں۔
لَوپارک (Love Park)، محبت، شاعری اور بحرالکاہل: لیما کے علاقے ’’میرا فلوریس‘‘ کی ایک اونچی پہاڑی پر واقع یہ مقام بلاشبہ اپنے نام کی مکمل عکّاسی کرتا ہے۔1993ء میں عوام کے لیے کھولا گیا یہ پارک اُس وقت سے محبّت کرنے والوں، شاعری کے دل دادہ افراد اور فطرت کے شوقین سیّاحوں کا پسندیدہ ٹھکانہ بن چکا ہے۔
پارک کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی دیواروں پر اسپینش اور مقامی زبان میں محبّت بھری نظمیں، اشعار اور جملے کندہ کیے گئے ہیں۔ گویا ہر اینٹ اورہرکونے میں کوئی نہ کوئی جذباتی کہانی چُھپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل جیوگرافک نے اس مقام کو دنیا کی سب سے رومینٹک جگہوں میں شمار کیا ہے۔ پارک کے وسط میں مشہور فن کار، وکٹر ڈیفلن کا تخلیق کردہ ایک بڑا اورجاذبِ نظرمجسّمہ نصب ہے۔ یہاں سے بحرالکاہل کا نظارہ ذہن کو مسحور کردیتا ہے۔ پہاڑی سے نشیب کی جانب ایک پُل، اس کے ساتھ گزرتی سڑک۔
دوسری جانب چٹانوں سے ٹکراتی سمندر کی سفید اور نیلگوں لہریں اور اُن میں سرفنگ کرتے، تند و تیزلہروں سے کھیلتے جواں دل نوجوان۔ شام کے گہرے سائے میں غروبِ آفتاب کا منظر، بحرالکاہل کا خوب صورت نظارہ اور دُور دوسری پہاڑی پر چمکتی روشنیاں بہت بھلی محسوس ہورہی تھیں۔ ہم نے کچھ مناظر کیمرے میں قید کیے اور کچھ دل کے گوشے میں۔
لذیذ ذائقے، حلال کھانے کی تلاش اور لیما کا تاریخی مرکز: پیرو اپنی قدرتی خُوب صُورتی اور قدیم تہذیب کی بدولت شہرت رکھنے کے علاوہ پوری دنیا میں اپنے منفرد، لذیذ کھانوں کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ تاہم، غیر مسلم مُلک ہونے کی وجہ سے یہاں حلال گوشت کی دست یابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
خوش قسمتی سے میرافلوریس میں ہمیں ایک عرب ریسٹورنٹ ’’علی بابا‘‘ مل گیا۔ وہاں کام کرنے والے ملازمین کا تعلق فلسطین سے تھا۔ بہت عرصے بعد عربی زبان بولنے کا موقع ملا اور اُن سے کی گئی مختصر سی گفتگو رُوح کو ایک مانوس سی خوشی دے گئی۔ کھانے میں حلال چکن شوارما، مکس گرل اور فرائیڈ فش سے لطف اندوز ہونے کے بعد واپس ہوٹل کا رُخ کیا۔
دوسرا دن، لیما کا تاریخی مرکز: اگلی صبح ناشتے کے فوری بعد ہی لیما کا تاریخی مرکز دیکھنے کے لیے بذریعہ ٹورسٹ بس روانہ ہوگئے۔ بس نے ایک مخصوص مقام پر اُتاردیا، پتا چلا کہ یہاں سے مزید سفر پیدل طے کیا جائے گا، خیر، تھوڑی ہی دُور چلنے کے بعد ہی لیما کے قلب میں واقع تاریخی چوک پہنچ گئے۔ تاریخی چوک میں سب سے نمایاں عمارت پیرو کا صدارتی محل ہے، جسے ’’ہاؤس آف پیزارو‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔
محل کی بنیاد1535ء میں اسپینش جنرل فرانسسکو پیزارو نے رکھی، جس نے اسپین کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں ’’انکا سلطنت‘‘ ختم کرکے پیرو میں اسپینش راج کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی حکومت لگ بھگ تین سو برس تک جاری رہی۔ اس محل کو1930ءمیں دوبارہ آراستہ کیا گیا اور آج بھی یہاں حکومتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہاں گارڈز کی تبدیلی کی تقریب نہایت نظم و ضبط اور دبدبے سے بھرپورانداز میں کی جاتی ہے،اتفاق سے اُس وقت بھی وہاں شان دار انداز میں گارڈز کی تبدیلی کا عمل ہورہا تھا۔
پیزارو کی تاریخ اور لیما کی بنیاد: پیزارو نے دو ناکام حملوں کے بعد 1533ءمیں پیرو کو فتح کیا۔ اس وقت ’’انکا سلطنت‘‘ اندرونی اختلافات اور انتشار کا شکار تھی۔ سلطنت کا دارالحکومت کسکو تھا۔ پیرو پر قبضے کے بعد1535ء میں پیزارو نے لیما شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں اپنا محل بنایا۔ جس کے بعد ایک صدی کے اندر اندر90فی صد مقامی ’’انکاآبادی‘‘ کا صفایا ہوگیا۔
اس کی بڑی وجوہ قدرتی آفات اور متعدد بیماریوں کاپھیلاؤ تھا، جن کے خلاف مقامی افراد کے پاس کوئی مدافعتی نظام نہیں تھا۔انکا آبادی کے خاتمے کے بعد اگلے تین سو سال پیرو اسپین کے زیرِ نگیں رہا۔ جنگِ آزادی 1809ء میں شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ 8جولائی 1821ءکو سان مارٹن نے آزادی کا اعلان کیا۔تاہم، یہاں اسپینش اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔
مقامی افراد نہایت روانی سے اسپینش بولتے ہیں، جب کہ ثقافتی مظاہر اور بودوباش میں ہسپانوی اثر نظر آتا ہے۔ صدارتی محل کے مختلف گوشوں میں گھومتے ہوئے گزرے زمانے کی بازگشت آج بھی سُنائی دیتی ہے، ہر گام پر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے تاریخ کے اوراق پلٹ رہے ہوں، محل کی سیّاحت کے اس سفر سے صرف فاصلے طے نہیں ہوتے، دل و دماغ بھی صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)