• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرفتاریاں، جیل، سزائیں، فوجی عدالتیں، کوڑے، جلا وطنی، صوبہ بدری اور اس پر یہ کے ضمانت نہیں کرانی خوش اسلوبی سے قید و بند کی صوبتیں برداشت کرنا۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں کس سیاسی تحریک یا جماعت کی بات کر رہا ہوں یا تاریخ بیان کر رہا ہوں۔ جی نہیں یہ اس تاریخی’جدوجہد‘ کی کہانی ہے جس کی بنیاد ہمارے ملک کے چند نامور صحافیوں نے 2اگست 1950ء کو تاریخی خالق دینا ہال میں رکھی تھی جسکی تین دن بعد اسی مقام پر ’پلاٹینم جوبلی‘، منائی جارہی ہے یعنی 2؍اگست 2025ء کو جس میں ملک بھر سے صحافی شرکت کر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں صوبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’جدوجہد‘ سیاسی ہو یا صحافتی یہاں تک کہ طلبہ تحریک، اسکی ابتدا اس شہر جو کبھی دارالحکومت تھا کراچی سے ہوئی۔

ہمارے بہت سے نوجوان صحافی بلکہ وہ بھی جنہیں، اس شعبہ میں آئے کئی برس ہوگئے ہیں، کو جناب ایم اے شکور اور اسرار احمد کا شایدنام بھی نہ پتا ہو۔ شکور صاحب جن کا تعلق قیام پاکستان سے پہلے بھی انگریزی اخبار ڈان سے تھا اور اپنے بائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے خود اخبار کے ایڈیٹر جناب الطاف حسین انہیں پسند نہیں کرتے تھے مگر جب گورنر جنرل غلام محمد کا دبائو آیا کہ ایسے لوگوں کو اخبار سے نکال دو تو انہوں نے جواب دیا، ’’میں خود بائیں بازو کے نظریات کا حامی نہیں مگر یہ سب شکور سمیت اپنے پیشہ ورانہ کام میں ماہر ہیں‘‘۔ پھر شکور صاحب کو ’سیکورٹی ایکٹ‘ کے تحت گرفتار کر لیا گیا بعد میں ان پر زمین تنگ کردی گئی اور بقول اسرار صاحب، ’’ملک بدر کردیا گیا ‘‘۔ تاہم ان دونوں حضرات نے چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر پہلے 1948ء میں سندھ یونین آف جرنلسٹس (ایس یو جے) کی بنیاد ڈالی اور پھر 2؍اگست 1950-51ء کو پی ایف یو جے قائم کی، ان دو برسوں کے درمیان انہیں شدید دبائو کا سامنا رہا اخباری انتظامیہ سے بھی اور سرکاری انتظامیہ سے بھی۔ تصور کریں یہ جملہ کہ ’اوپر سے حکم ہے‘پاکستان بننے کے فوری بعد سے لے کر آج تک استعمال ہوتا ہے اگر کوئی اجازت منسوخ کرنی ہو۔ ایس یو جے قائم کرنے کے سلسلے میں پہلا اجلاس ایس ایم لا کالج میں کرنا تھا مگر پرنسپل کی اجازت کے باوجود گیٹ پر سرکار نے تالا لگا کر کالج ہی بند کردیا۔جب پہلا کنونشن خالق دیناہال میں ہوا تو وزیراعظم لیاقت علی خان کو آنا تھا۔ شکور صاحب نے ان کو خط میں دعوت دیتے ہوئے لکھا، ’’آپ کو بلانے کا مقصد ملک میں جمہوریت اور سول حکمرانی کو مضبوط کرنا ہے۔‘‘ وزیراعظم مصروفیت کی بنا پرنہ آسکے مگر ان کا پیغام وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان نے پڑھ کر سنایا۔پی ایف یو جے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپنے 75برسوں میں اس نے مثالی تحریکیں چلائیں اور کئی سیاسی جماعتوں نے اس کو فالو کرنے کی کوشش کی۔ یہ تحریکیں صرف مارشل لاادوار میں ہی نہیںبلکہ سویلین حکومت نے بھی میڈیا پر پابندیاں لگائیں تو پہلی آواز پی ایف یو جے کی بلند ہوئی۔ مگر سب سے تاریخ ساز جدوجہد 1970ء میں معاشی حقوق کیلئے چلائی گئی جب پورے ملک میں 10 روز کی ہڑتال کی گئی اور مغربی اور مشرقی پاکستان میں کوئی اخبار نہ نکل پایا۔ اس کی تفصیل مصنف اشرف شاد کی کتاب ’صحافت کے خارو گل‘ میں مل جائیگی۔ بھٹو صاحب کے دور میں جب 1973ء میں جماعت اسلامی کے اخبار جسارت پر پابندی لگی تب بھی پی ایف یو جے نے ہی ہڑتال کی کال دی ۔ اس بارے میں ڈان کے سابق ایڈیٹر احمد علی خان نے ایک مضمون میں لکھا، ’’اس دن اخبار کی ڈمی میں نے پہلے سے تیار کردی تھی کیونکہ میں خود بھی اس دن ہڑتال پر تھا دیگر صحافیوں کی طرح ‘‘۔

1977-78ء کی دو تاریخ ساز تحریکیں پی پی پی کے اخبار مساوات، کراچی اور پھر لاہور پر پابندی کے خلاف تھیں۔ اس پر احفاظ الرحمان صاحب کی کتاب ، ’سب سے بڑی جنگ‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے چونکہ احفاظ صاحب خود اس وقت اس تحریک کی ایکشن کمیٹی کے کنوینر تھے۔ پہلے بھوک ہڑتال کی گئی اور پھر گرفتاریاں دینے کا فیصلہ ہوا۔ صحافیوں نے از خود اپنے نام گرفتاری دینے کیلئے لکھوائے مگر یہ فیصلہ کمیٹی کرتی تھی کہ کس دن کس نے گرفتاری دینی ہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ تحریک لمبی ہوئی تو پریشانی آئی مگر اس وقت سندھ پارٹی کمیٹی کے فاضل راہو نے اپنی تنظیم کے لوگوں کو بھی صحافیوں کے ساتھ گرفتاری دینے پر تیار کیا۔ مساوات، کراچی پر سے پابندی اٹھائی گئی تو مساوات لاہور پر لگا دی گئی پھر تحریک ریگل چوک کراچی سے مال روڈ لاہور منتقل ہوگئی اور وہاں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

صحافیوں کو ’کوڑے‘ مارنے کا و اقعہ بھی صحافتی دنیا کا انوکھا واقعہ ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر نثار عثمانی گرفتاری دینے گئے تو اہلیہ کو نہیں بتایا جن کی بینائی کمزور ہو رہی تھی۔ چھ مہینہ بعد جیل کاٹ کر آئے تو بیوی شوہر کو صرف ان کی آواز سے پہچان سکیں۔ اسی دوران چار صحافیوں جناب مسعود اللہ خان، ناصر زیدی ، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی کو ملٹری کورٹ نے سمری ٹرائل کرکے جیل اور کوڑے لگانے کا بھی حکم دیا۔ کہتے ہیں مسعود صاحب کی کورٹ کے افسرسے تلخی ہوگئی اور انہوں نے کہا ،’ایسا کریں سزا سنا ئیں چھوڑیں مقدمے کو‘ سزا پر فوراً ہی جیل پہنچ کر عمل بھی ہوگیا۔ مگر آفرین ہے ان لوگوں پر جو ہر کوڑے پر ’آزادی صحافت زندہ باد‘‘ کے نعرہ بلند کررہے تھے۔ البتہ مسعود صاحب کو ان کی معذوری کی بنا پر ڈاکٹرز نے کوڑے مارنے سے منع کردیا جس پر کہتے ہیں خان صاحب ناراض ہوئے کہ انہیں کوڑے کیوں نہ مارے گئے۔

ایک اور بڑی تحریک جنرل پرویزمشرف کے 3؍نومبر 2007ءکو ایمرجنسی لگانے کے ساتھ ہر ٹی وی چینل پر پابندی، آف ائیر کرنے اور چند بڑے اینکرز پر پابندی کیخلاف چلائی گئی جو 88روز جاری رہی اس دوران پی ایف یو جے نے ان اینکرزجن میں حامدمیر، کاشف عباسی، عاصمہ شیرازی اور طلعت حسین شامل تھے،سےروڈ شوزکروائے۔ میں اس وقت تنظیم کا سیکرٹری جنر ل اور ہما علی صدر تھے ہم پر بڑا دبائو تھا تحریک نہ چلانے کا، پہلا جلوس نکالا تو دو سو صحافیوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوا۔ کراچی میں تین صحافیوں کی گرفتاری کیخلاف بطور احتجاج 150 صحافیوں نے از خود گرفتاری دیدی ۔ ایک طویل تاریخ ہے جسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی حکومتیں کالے قوانین بنانے سے باز نہیں آتیں اس کی ایک بد ترین شکل ’پیکا‘ قانون ہے جو 2016ء میں مسلم لیگ کی حکومت میں آیا ، عمران خان کی حکومت میں اسے مزید سخت کیا گیا اور اب موجودہ حکومت نے اس کو بد ترین مشکل میں نافذ کردیا ہے۔

جس طرح ’جمہوریت اور مارشل لا‘ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اسی طرح کسی ایسے نظام کو جمہوری نہیں کہا جاسکتا جس میں صحافت ہی پابند سلاسل ہو۔ اس سب کے باوجود ایم اے شکور اور اسرار احمد کا لگایا ہوا پودا اور برنا صاحب، نثار عثمانی، عبدالقدوس شیخ، شفیع الدین اشرف اور احفاظ الرحمان جیسے لوگوں کی قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ البتہ جدوجہد کیلئے پی ایف یو جے کا یک زبان اور متحد ہونا ضروری ہے۔ ’پلاٹینم جوبلی‘ کا یہی سبق ہے۔ اس تنظیم سے ماضی میں ریاست کے خوف کے عالم کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار معراج محمد خان صاحب کو برنا صاحب کے انتقال کے چند سال بعد ایک فون آیا اور اس شخص نے ’برنا صاحب‘ کے گھر کا پتہ مانگا، خان صاحب نے کہا ، بھائی ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ افسر نے کہا، ’پتہ پھر بھی دے دیں فائل بند کرنی ہے‘۔

تازہ ترین