• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرزمین فورم کے سربراہ صفدر خان کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ گاہے گاہے پاکستان کو درپیش قومی مسائل کے حوالے سے فوری نشستوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ابھی حالیہ نشست میں راقم الحروف کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی ، ڈاکٹر افتخار ،ثروت کاظمی، ریٹائرڈ ڈی آئی جی نوید الٰہی، عرفان اطہر قاضی ، نور الامین اورمیجر نير شریک گفتگو تھے۔ ویسے تو یہ موضوع ایک طویل عرصے سے زیر بحث ہے کہ پاکستان کے امریکہ اور چین سے تعلقات میں توازن کیسے قائم کیا جاسکتا ہے مگر مودی کی بےوقوفی کے بعد یہ مسئلہ اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہےسرزمین فورم پر اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے میں نے عرض کی کہ پاکستان کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ان دونوں بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات کا خاکہ مرتب کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیںکہ دونوں سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے اسلئے ان دونوں سے تعلقات کو توازن دینا ممکن ہو جاتا ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ان دونوں کو ان مختلف نوعیت کے امور کا ادراک کرانے میں کامیاب ہو جائیں ۔ جب ہم ایک خالص طور پر دو طرفہ معاشی سرگرمی سی پیک کو گیم چينجر اور ایک مقابلہ جاتی شے کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم اس کا ایک مخالف فریق خود ہی تراش لیتے ہیں اور یہ خود تراشہ ہوا فریق بہر حال اس پر نظریں ضرور گاڑ لیتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور پھر وہ اپنے مفادات کا تعین کرتے ہوئے اقدامات بھی کر گزرتا ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ چین کی بھی یہ قطعی طور پر خواہش نہیںکہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو امریکہ کے مد مقابل اقدام کے طور پر پیش کرے ویسے بھی ابھی تک چین کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ کسی سے بھی تصادم سے حتی المقدور اجتناب کرتا ہے، ما سوائے’’ ایک چین‘‘ پالیسی کے وہ کسی بھی معاملہ کو ٹھنڈا ہو کر ہی طے کرنا چاہتا ہے ۔ ابھی جب پاک انڈیا تصادم ہوا تو شکست کے بعد انڈیا کی جانب سے جان بوجھ کر چین کو اس چار روزہ جنگ میں ایک متحرک فریق کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی مگر چین نے اس سب شرارت کے باوجود رد عمل انتہائی محتاط ہو کر دیا ۔ اور اب جب پانچ سال بعد ، گلوان کی جھڑپوں اور پاک انڈیا تصادم کے بعد انڈیا کے وزیر خارجہ بیجنگ پہنچے تو اس پر انڈیا کے معروف پروفیسر پشپ ادھیکاری کا کہنا تھا کہ’’روس سے خبر آئی ہے کہ وہ روس ، چین ، انڈیا کے سہ فریقی اتحاد کو فعال کرنا چاہتا ہے ۔ اب انڈیا کو کچھ جواب دینا ہی پڑئیگا کیونکہ دلی اس معاملے پر امریکہ کے قریب ہو رہا تھا ۔ اب انڈیا کو اپنا پارٹنر منتخب کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا ‘‘ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ (لیمیو)، کمیونیکیشنز کمپیٹیبلٹی اینڈ سیکورٹی ایگریمنٹ (کوم کاسا) اور بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بیکا) جیسے معاہدوں کے ذریعے بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک شراکت داری اس کی امریکہ کی قربت حاصل کرنے کی خواہش کو واضح کرتی ہے مگر پھر بھی انڈیا میں جان بوجھ کر چین کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے تا کہ امریکہ کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اگر امریکہ انڈیا کو وہ حیثیت نہیں دیتا جسکا انڈیا تقاضا کرتا ہے تو وہ اس نوعیت کے کسی بھی اتحاد میں جا سکتا ہے۔ بیجنگ کے شہ دماغ اس سب کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اسی لئےیہ طے شدہ امر ہے کہ چین کسی بھی ملک سے جتنی مرضی قربت اختیار کرلے مگر اس سے اسکے پاکستان سے تعلقات کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑئیگا ۔ امریکہ کے حوالے سے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد دنیا بھر میں یہ تصور قائم ہواہے کہ امریکہ کی پاکستان پالیسی میں ایک شفٹ آ رہا ہے حالانکہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ گزشتہ چند ماہ سے امریکہ کا سفیر تک موجود نہیں ہے ۔ قائم مقام سفیر اور پولیٹکل قونصلر پاکستان کو بہت بہتر طرح سمجھتے ہیں مگر بہر صورت باقاعدہ سفیر کا ہونا از حد ضروری ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگرپاکستان معاشی میدان میں بھی کوئی کامیابی حاصل کرلے تو امریکہ سے تعلقات کی حیثیت مزید بڑھتی چلی جائیگی ۔ دونوں بڑے ممالک میں یہ تصور بہت تیزی سے قائم ہو رہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر اسٹرکچرل ریفارمز تو کرلی ہیں مگر سرمایہ کاری لانے یا اندرون ملک اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ اس بات کابھی برملا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان انڈیا سے جیتنے کے باوجود ابھی تک اس کو سندھ طاس معاہدہ پر واپس نہیں لا سکا اور اگر اکتوبر تک انڈیا کی موجودہ پوزیشن برقرار رہی تو ایسی صورتحال پانی کے حوالے سے خطرناک رخ اختیار کر جائیگی اور اسکے اثرات پاکستان کی سیاسی زندگی پر بھی پڑ سکتے ہیں ۔ چین پاکستان کی سماجی زندگی میں بھی بھرپور کردار ادا کرنے کے حوالے سے اقدامات کر رہا ہے ابھی تعلیم کے شعبے میں ہی پاکستان مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن کمپنی نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے طلبا کو اسکالر شپس دی ہیں۔ اس نوعیت کے اور بھی امکانات مختلف یونیورسٹیوں کیلئے سامنے آ رہے ہیںمگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں کے حکام ان امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کررہے۔ابھی کچھ عرصہ ہوا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہی ایک ملک پورا ڈیپارٹمنٹ بنا کر دینا چاہتا ہے۔ایک دوست نے تو مجھ سے درخواست کی کہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب مريم نوازکے نوٹس میں لیکر آؤں کہ اس قسم کی پیشکشیں موجود ہیں مگر ان پیشکشوں کے حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا ۔

تازہ ترین