• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں کبھی سیاست کو مطعون کرتے ہوئے ریاست بچانے کا نعرہ لگتا ہے تو کبھی سیاسی مخالفت کے پیش نظر یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ عوامی نمائندوں کا کام سڑکیں ،پُل اور نالیاں بنانا نہیں بلکہ قانون سازی کرنا ہے۔ مجھ ایسے کالم نگار بھی اپنا سودا بیچنے کے لئے ہتھیلی پر سرسوں جمانے اور لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ چونکہ برسراقتدار حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالنے پر قارئین داد کے ڈونگرے برساتے ہیں ،اس لئے ہم مثبت اقدامات میں بھی منفی پہلو کشید کرتے چلے جاتے ہیں۔اب لاہور میں میٹرو بس کے بعد میٹرو ریل منصوبے کی مثال ہی سامنے رکھ لیں ،قلم بردار محدب عدسے لیکر نہایت جانفشانی سے تنقید کے اسباب ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک نے کہا غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشی پر مجبور ہیں اور رائے ونڈ کے شہزادوں کو دیکھو ،یہ لاہور کو لندن بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک اور صاحب نے کہااسپتالوں اور اسکولز کی حالت ابتر ہے،بہتر ہوتا کہ یہ رقم صحت و تعلیم پر خرچ کر دی جاتی۔ ایک مستند کالم نگار نے تو نہایت دردمندی سے لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں خاتون کو قتل کئے جانے کے واقعے کو میٹرو پروجیکٹ سے جوڑتے ہوئے نہ صرف میٹرو بس اور ریل بلکہ موٹروے کو بھی بے ثمر قرار دے ڈالا۔ان کا استدلال یہ ہے کہ پہلے معاشرے کی سوچ کا دھارا بدلا جائے،سوچ اور فکر کی شاہرائوں پر متمدن اور اعلیٰ و ارفع خیالات کی ٹریفک رواں دواں ہو اور پھر پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف توجہ دی جائے۔ افسوس ایسے مشیر رومن حکمرانوں کو میسر نہ آئے ورنہ وہ تمدنی تبدیلیاں لائے بغیر برطانیہ میں سڑکوں کا جال نہ بچھاتے۔چین کے پہلے حکمران Qin Shi Haung کو یہ بات نہ سوجھی ورنہ وہ اپنی ریاست کے طول و عرض میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے افیون زدہ چینیوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا نہ کرتا۔مجھے تعجب ہے کہ ایسے نابغۂ روزگار دانشور آج بھی چین کو میسر نہیں وگرنہ وہ احمق اور نادان بُلٹ ٹرین چلانے، بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرنے اور ایکسپریس ہائی وے جیسے منصوبوں پر وسائل ضائع کرنے کے بجائے یہ رقم غربت کے سدباب اور معاشی ناہمواری میں کمی لانے پر خرچ کرتے۔ چین کی معاشی ترقی اپنی جگہ لیکن آج بھی وہاں 948ملین (75فیصد) افراد کی یومیہ آمدن پانچ ڈالر فی کس سے کم ہے اور 172ملین (13فیصد )افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارت میں غربت کا یہ عالم ہے کہ دہلی کی سڑکوں پر روزانہ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد فٹ پاتھ پر سوتے ہیں مگر مایا وتی اترپردیش کی وزیراعلیٰ بنیں تو ان کی حکومت نے نویڈہ اور بلیا کو ملانے کے لئے دریا گنگا کے کنارے آٹھ لین والی ایکسپریس وے بنانے کا اعلان کر دیا۔ایک ہزار کلومیٹر طویل اس ایکسپریس وے کی تعمیر کا تخمینہ 400ارب روپے ہے اور یہ برصغیرکے عظیم حکمران شیر شاہ سوری کے گرینڈ ٹرنک روڈ کے بعد اس خطے کی سب سے بڑی سڑک ہو گی۔شیر شاہ سوری کے دور میں بھی ایسے دانشور موجود ہوتے تو جی ٹی روڈ کبھی نہ بن پاتا اور یہ عظیم منصوبہ بھی اس تنقید کے شور میں دب جاتا کہ پہلے خطے کی ذہنی و فکری پسماندگی دور کی جائے،تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور پھر ایسے منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے۔
جب لاہور میں میٹرو بس منصوبے پر کام شروع ہوا تو تب بھی ایسے ہی لایعنی نوعیت کے اعتراضات کئے گئے مگر میں نے حالات کی رو میں بہہ جانے کے بجائے اس منصوبے کو سراہا۔عمران خان جنہوں نے پرویز الٰہی کی تقلید میں ’’جنگلہ بس‘‘ کی پھبتی کسی،آج ان کی حکومت پشاور میں میٹرو بس چلانے کے لئے ترک کمپنی کی منت سماجت کر رہی ہے۔پاکستان جیسے غریب ملک میں ہر سال پچاس ہزار نئی گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں ۔ہر سفید پوش شخص کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی موٹی گاڑی خرید لے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذلت و رسوائی بھرے سفر سے جان چھوٹ جائے۔ہم ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں وزیراعظم اور صدر سمیت تمام بڑے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں مگر اس کی وجوہات اور پس منظر پر غور نہیں کرتے۔ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا سفر سہل ،سستا اور پر آسائش ہے اس لئے لوگ اپنی گاڑیاں یا تو خریدتے ہی نہیں یا پھر اندرون شہر آمد و رفت کے لئے استعمال نہیں کرتے۔برطانیہ میں زیر زمین ریل کا نظام 1867ء سے کام کر رہا ہے۔صرف لندن کے انڈر گرائونڈ ریل سسٹم میں 408کلومیٹر طویل ٹریک پر یومیہ 30لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ برطانوی شہری دو لاکھ پائونڈ کی گاڑی خریدنے کے بجائے 2پائونڈ کا ٹکٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پیرس کا میٹرو سسٹم لندن سے بھی زیادہ پر آسائش اور تیز تر ہے۔وہاں روزانہ 45لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔امریکہ میں زیر زمین ریل کو ’’سب وے ‘‘ کہا جاتا ہے اور وہاں نیو یارک، فلاڈلفیا اور بوسٹن سمیت12ریاستوں میں یہ نظام مستعمل ہے۔ کینیڈا ،جاپان ،چین سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ سہولت ہے ہی مگر اب تو بھارت بھی ہم پر سبقت لے جا چکا ہے۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں کئی سال سے میٹرو رواں دواں ہے اور اب جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور میں بھی میٹرو منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔اب تو دنیا زقندیں بھرتی آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ منیلا، پیرس، کوپن ہیگن، کوریا، تائیوان، ٹوکیو، سنگا پور سمیت کئی ممالک میں بغیرڈرائیور کے خودکار گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں کبھی جی ٹی ایس کے نام سے پبلک ٹرانسپورٹ ہوا کرتی تھی جو ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی۔ترقی یافتہ ممالک میں آمد و رفت کے لئے ’’ٹیوب‘‘ ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں نہ ٹائر ہے نہ ٹیوب۔
میٹرو بس منصوبے کے تخمینے کے مطابق اس سے یومیہ 50000 افرادنے استفادہ کرنا تھا مگر مسافروں کی کثرت کے باعث مزید 20بسیں منگوانا پڑیں اور اب روزانہ اوسطاً ڈیڑھ لاکھ افراد میٹرو بس سے سفر کرتے ہیں۔نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں بنیادی اور فوری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے باالخصوص جب میں جنوبی پنجاب کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرتا ہوں تو دل سے ایک ہوک سی نکلتی ہے کہ کیا یہ سب ترقیاتی منصوبے لاہور کا ہی مقدر ہیں؟ لیکن اس امید پر صبر کا دامن نہیں چھوٹتا کہ چلو لاہور بھی تو اپنا دل ہے، اسے سنور اور نکھر جانے دیں آخر کبھی تو ڈی جی خان، راجن پور ،مظفر گڑھ ،ملتان،خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولپور اور رحیم یار خان کی باری بھی آئے گی۔برق رفتار میٹرو سے شائد معاشرتی سوچ کا دھارا تو نہ بدلے مگر ان سفید پوشوں کی تقدیر ضرور بدل جائے گی جنہیں جانوروں کی طرح ویگنوں اور بسوں میں ٹھونسا جاتا ہے۔کولمبیا کے میئر Enrique Penasola نے کہا تھا،ترقی یافتہ ملک وہ نہیں ہوتا جہاں ہر غریب آدمی کے پاس کار ہوبلکہ ترقی یافتہ ملک وہ ہوتا ہے جہاں امیر پبلک ٹرانسپورٹ پرسفر کریں۔
تازہ ترین