• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرت کے نام پر بلوچستان سے سامنے آنے والا گل بانو اور احسان اللہ زر کا بہیمانہ قتل نہ صرف انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے بلکہ معاشرے کی اس روح کا بھی قتل ہے جسے ہم غیرت ، روایت، مردانگی، قبائلی انااور جرگہ نظام کے نام پر روندتے چلے آرہے ہیں ۔ اس سانحہ نے پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کہا ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کو سزا نہ ملی تو پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکل 16کا دستخط کنندہ ہے، جسکے مطابق ہر شادی ، رضامندی اور آزادی پر مبنی ہو نی چاہیے ۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں ایسے واقعات میں ملوث سردار اور جاگیردار دیت یا صلح کی دفعات کا سہارا لے کر یا قبائلی دبائو پر معافی حاصل کر کے قانون کی گرفت سے بچتے رہے ہیں۔اسی سلسلے میں مقتولہ کی والدہ کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں غیرت کے نام پر قتل کی اس واردات کو بلوچ رسم و رواج کا حصہ قرار دیا گیا اور مبینہ قاتلوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔لیکن پاکستان علما ء کونسل نے اس بیان کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین اور قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس قتل میں والدین کی مرضی شامل تھی اور شریعت اسلامیہ یہ حکم دیتی ہے کہ اگر کسی ظلم میں کوئی قریبی عزیز بھی شامل ہو تواس کو بھی سزا ملنی چاہیے۔آج ریاست پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پدر شاہی کے اس ناسور سے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اوراس سلسلے میں تعزیرات پاکستان میں جو دفعات موجود ہیں، انکا با اثر لوگوں پر بھی اطلاق کرے۔اس سلسلے میں 2016ء میں حکومت نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 311کے تحت ان قانونی خامیوں کو ختم کر دیا ہے جن کے باعث غیرت کے نام پر قتل کرنے والے باآسانی بری ہو جاتے تھے ۔ اس دفعہ میںیہ بات بھی شامل ہے کہ ریاست’’غیرت‘‘کے نام پر ہونے والے قتل میںخود مداخلت کر سکتی ہے، چاہے مدعی ، ملزم کو معاف بھی کر دے۔لیکن ان ترامیم کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کو مقتول کے ورثاء کی جانب سے صلح کی صورت میں معاف کیا جاتا رہا ہے۔اس سے پہلے بھی بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں بڑے بڑے سرداروں اور جاگیرداروں کو ریاستی اور سماجی گٹھ جوڑ کے ذریعے قانون کے ان شکنجوں سے چھڑا یاجاتا رہا ہے۔کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق اس سال غیرت کے نام پر 344خواتین کو قتل کیاگیا ۔ اسکے ساتھ ساتھ ILOنے بھی خواتین کے بارے میںایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اور کئی باتوں کے علاوہ ایک تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صرف 23فیصد خواتین ملازمتیں کرتی ہیں جبکہ مردوں کی شراکت 79فیصد یعنی 56فیصد کا خوفناک فرق ہے جو پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس واقعہ نے پورے سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور اگر ہم خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں توحکومت پاکستان اورعوامی دانشوروں کو عملی اقدامات کرنے ہونگے ۔ ایک نئی تاریخ اور ایسا نصاب مرتب کرنا ہوگا جو ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی میں عورتوں کے کارناموں کو اجاگر کرے، خاص طور پر وہ عورتیں جنہوں نے بہ حیثیت سربراہ مملکت، ، فوج کے سپہ سالار ، ادیبہ و شاعرہ اور فنکار کی حیثیت سے خود کو تسلیم کروایا ۔جن میں رضیہ سلطان و چاند بی بی، عاصمہ جہانگیر ، بے نظیر بھٹو،ملالہ یوسفزئی اور ایمان مزاری کے علاوہ کئی اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس تاریخ کی ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ ہماری پوری تاریخ مردوں کی تاریخ ہے اور عورت کا وجود کبھی ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ہماری تاریخ میں تمام برائیوں اور خرابیوں کو عام طور پر زن ، زر اور زمین سے منسلک قرار دیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس میں زر اور زمین بے جان اور بے حس چیزیں ہیں، جبکہ عورت کسی بھی معاشرے کی باشعور اور حساس علامت ہوتی ہے۔عورت کی باوقار تاریخ میں خاندان کی زندگی ، گھریلو کام، آرائش ، لباس ، رسومات اور تہوار شامل ہیں اور اگر ان پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے تو تاریخ میں عورت کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا ماضی بھی بدل جائے گا۔اس تاریخ میں ہمیں بتاناہوگا کہ موہن جودڑو کی تہذیب میں عورت کی حیثیت بڑی اور افضل تھی اور یہاں آرائیوں کے آنے سے پہلے مادرانہ نظام رائج تھا۔خود آریہ معاشرے کے ابتدائی زمانے میں بھی اس کے شواہد رگ وید میں ملتے ہیں،جب دیویوں کی پوجا کی جاتی تھی ، جن میں اوشا ، ارن یانی اور سرسوتی شامل تھیں لیکن آہستہ آہستہ اب انکی جگہ دیوتائوں نے لے لی ۔یہ تاریخ بتائے گی کہ مادرانہ نظام میں جب عورت کو سماجی فضیلت حاصل تھی تو کس طرح انسانی مساوات ، زندگی کا تقدس ، انسان دوستی ،روشن خیالی ، جمہوریت اور اشتراکیت کا فروغ ہوا اور پھر کس طرح پدارانہ معاشرے میں آمریت ، مطلق العنانیت ، فاشزم اور انفرادیت پرستی کا بول بالا ہوا۔پاکستا ن میںآج بھی قبائلی اور سماجی روایات نے عورت کو کمتر سمجھنے اور پسماندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔آج بھی پاکستان میں پسند کی شادی اور جائیداد میں حصے کو سماجی روایات سے منافی سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پسند کی شادی پر غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری کی وارداتوں کے بڑھنے سے عورتوں کومردوں کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی راہ میں بے شمار رکاوٹوں کا سامناہے ۔لیکن گل بانو نے جس طرح سردار کے سامنے جھکنے سے انکار کیا بلکہ جھوٹ بولنے اور بہتان سے بھی انکار کیا، اس سے پاکستانی معاشرے میں نئی راویتیں جنم لیں گی۔ گل بانو مر گئی مگر سچ بول کر اور حق پر ڈٹ کر مری اور یوں انہی روایتوں کے بل بوتے پروہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی۔

تازہ ترین