مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ اُس دور کی بات ہے، جب لڑکیوں کی شادی چھوٹی عُمر میں ہوجایا کرتی تھی۔ رضیہ کی شادی بھی16سال کی عُمر میں ہوگئی تھی اور وہ اجمیر سے بیاہ کر کلکتہ آگئی۔ اُس کا شوہر بہت خیال رکھنے والا اور سسرال والے بھی بہت اچھے تھے۔ مختصر فیملی تھی، ساس کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایک نند شادی شدہ تھی۔ شوہر اور سُسر کا چائے کا کاروبار تھا، اس سلسلے میں اُن کا اکثر مشرقی بنگال بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔
اُن کی شادی کو ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہوں گے کہ مُلک کے حالات خراب ہونے لگے، ہر طرف بٹوارے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ کلکتے کے جس محلّے میں رضیہ کا گھر تھا، وہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی، مسلمانوں کے بس اِکادُکا ہی گھر تھے۔ آزادی کی تحریک نے زور پکڑا، تو آئے دن مسلمانوں کے گھروں میں لُوٹ مار اور قتل وغارت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اُن حالات کے پیشِ نظر رضیہ کے سُسر، اسلم صاحب نے کلکتہ سے مشرقی پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔
مشرقی پاکستان منتقل ہونے کے بعد رضیہ بہت خوف زدہ اور اُداس تھی کہ ابھی اُس کی شادی کو صرف دس ماہ ہی کا عرصہ گزرا تھا، وہ بھرا پُرا میکہ چھوڑ کر آئی تھی، اس لیے بڑی مشکل سے اس نئے گھر اور ماحول سے مانوس ہوئی۔ محلّے میں تھوڑی جان پہچان کے بعد چند سہیلیاں بھی بنالی تھیں، مگر اب پھر انہیں نئی جگہ کُوچ کرنا تھا۔ چٹاگانگ میں اُس کے سُسر کے چند کاروباری دوستوں سے اچھے مراسم تھے۔
لہٰذا وہاں کاروبار جاری رکھنا زیادہ آسان تھا، بہ نسبت نئی جگہ کے۔ بہرکیف، اُن کا یہ مختصر سا گھرانہ چٹاگانگ شفٹ ہوگیا اور جلد ہی کاروبار بھی جم گیا، لیکن کم عُمر رضیہ کے سامنے ایک بار پھر نیا گھر، نئے لوگ، نیا ماحول تھا۔ اور زبان بھی الگ ہونے کی وجہ سے اُس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں لگا، کیوں کہ وہ بنگالی زبان سے قطعی نا آشنا تھی، لیکن اب رہنا تو یہیں تھا، یہی سوچ کر وقت گزرنے کے ساتھ اس ماحول میں ایڈجسٹ ہوتی چلی گئی۔
وقت کا پہیّہ تیزی سے گھومتا رہا، اس دوران وہ پانچ بچّوں کی ماں بن گئی۔ سب سے بڑا بیٹا اور پھر چار بیٹیاں، شوہر نیک دل اور محنتی انسان تھا اور کاروبار بھی بہت اچھا چل رہا تھا، اس لیے روپے پیسے کی بھی ریل پیل تھی۔ غرض یہ کہ زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔ اس کے والدین اور بہن بھائی بھی قیامِ پاکستان کے چند ماہ بعد ہی بخیر وعافیت اجمیر سے کراچی شفٹ ہوگئے تھے۔ اس دوران وہ کئی بار ماں باپ سے ملنے کراچی آتی جاتی رہتی تھی۔
الغرض، وہ خوش اور ہر طرف سے مطمئن اپنے بچّوں کی پرورش میں مصروف تھی، مگر قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا-1971ء کے ابتدائی دنوں ہی سے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوگیا، آہستہ آہستہ علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں کی کارروائیوں میں بھی تیزی آنے لگی، حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جارہے تھے، ایک بار پھر آئے دن قتل وغارت گری اور لُوٹ مار کی خبریں سُنائی دینے لگیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اُردو بولنے والوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک شام رضیہ کا شوہر، حامد جب گھر واپس آیا، تو بڑا گھبرایا ہوا تھا، اس نے رضیہ کو فوراً ضروری سامان پیک کرنے کو کہا۔
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’کراچی جانے والی تمام پروازیں بند ہوچکی ہیں، لیکن کچھ دوستوں کی فیملیز نیپال کے راستے کراچی اپنے رشتے داروں کے پاس جارہی ہیں، تم بھی بچّوں کو لے کر اپنے امّی ابّو کے پاس کراچی چلی جاؤ، مَیں تم سب کے ٹکٹ لے آیا ہوں، صبح ہی روانہ ہونا ہے، چند دنوں میں مَیں بھی کاروبار سمیٹ کر تم لوگوں کے پاس پہنچ جاؤں گا۔‘‘
رضیہ گھر اور شوہر کو چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں تھی، یہ گھر اور اس کی ایک ایک چیز اس نے بڑی محنت اور محبّت سے بنائی تھی۔ وہ کسی طور وہاں سے جانے پر آمادہ نہ تھی۔ شوہر نے بہت سمجھایا اور حوصلہ دیا، تو وہ اپنے پانچ بچّوں کے ساتھ ایک اور ہجرت پر تیار ہوگئی۔ تب اس کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف ایک سال کی تھی۔ بہرحال، کئی دنوں کے صعوبت بھرے سفر کے بعد بہ حفاظت اپنے والدین کے گھر کراچی پہنچ گئی۔ یہاں اس کے ماں باپ اور چار غیر شادی شدہ بہن، بھائی تھے۔ ایک شادی شدہ بہن الگ رہتی تھی۔
اُدھر مشرقی پاکستان کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے چلے جارہے تھے۔ رضیہ کو کراچی آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا، اس دوران صرف ایک مرتبہ اس کے شوہر نے فون پر اس سے رابطہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ اسے کوئی فلائٹ نہیں مل رہی ۔تاہم، وہ کراچی پہنچنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔
اِدھر بھارت کی فوج نے چٹاگانگ میں باقاعدہ جنگ شروع کردی تھی، وہاں کے حالات سُن سُن کر رضیہ ہر وقت پریشان رہتی اور اپنے شوہر کی سلامتی کی دُعائیں کرتی۔ اس کے والدین اور بہن، بھائی سب ہی اُس کی دل جوئی کرتے۔ سب حامد کے لیے فکر مند تھے، اس کی کوئی خیرخبر نہیں مل رہی تھی۔
قیامِ پاکستان کے وقت1947ء میں رضیہ نے اپنا بَھرا پُرا، سجاسجایا گھر اور اپنے جہیز کی وہ تمام چیزیں، جو اُس نے بڑے ارمانوں سے خریدی تھیں، چھوڑ چھاڑ کر ایک بہتر مستقبل کی امید میں چٹاگانگ ہجرت کی تھی، لیکن اُس وقت جوانی کا جوش اور ولولہ تھا، قدم بہ قدم ہمّت اور حوصلہ دینے والا اُس کا شوہر، اُس کے ساتھ تھا، مگر اس دوسری ہجرت نے تو اس کے اوسان خطا کردئیے تھے۔
پانچ بچّوں کا ساتھ اور شوہر کا کچھ اَتا پتا نہیں تھا۔ بہرحال، چند ماہ اسی پریشانی میں گزر گئے اور پھر بالآخر 16دسمبر1971ء کو پاکستان کے دولخت ہونے کی رُوح فرسا خبر نے سب کی روح فنا کردی۔ وہ پاکستان، جس کے لیے وہ اپنا گھر بار، جائیدادیں، رشتے ناتے سب کچھ چھوڑ آئے تھے، ہزاروں جانیں قربان کی تھیں، عزتیں گنوائی تھیں، صرف24سال بعد ہی دوٹکڑے ہوگیا۔
سقوطِ ڈھاکا کے سانحے کے بعد باقاعدہ جنگ بندی کا حکم صادر ہوچکا تھا، بنگلا دیش الگ مُلک بن چکا تھا اور پھر اسی ستم گر دسمبر کے آخری ہفتے کی ایک ویران شام رضیہ کو یہ اذیّت ناک خبر ملی کہ اس کا شوہر حامد بھی چٹاگانگ پر بھارتی حملے کے دوران شہید ہوگیا۔
رضیہ پرتو گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، شوہر کی جدائی کا غم، پانچ بچّوں کا ساتھ، اُن کی پرورش کی ذمّے داری، ہر وقت بے سرو سامانی اور دربدری کے خوف میں گِھری رہتی، ماضی کی یادیں اُس کی آنکھوں میں کرچیاں بن کر چُبھنے لگتیں۔
تاہم، اللہ کا کرم تھا کہ رضیہ کے والدین حیات تھے، جو اُس کا اور اُس کے بچّوں کا خیال رکھ رہے تھے۔ اُس کے والد نے تینوں بڑے بچّوں کا اسکول میں داخلہ بھی کروادیا تھا۔ دو بیٹیاں ابھی چھوٹی تھیں، رضیہ خود بھی کچھ کرنا چاہتی تھی، چوں کہ سلائی، کڑھائی میں ماہر تھی، لہٰذا گھر پر رہ کر یہی کام شروع کردیا۔ اس طرح وہ اپنے بچّوں کے تعلیمی اخراجات خود ہی اٹھانے کے قابل ہوگئی۔
دونوں بیٹیاں گھر کے کاموں اور سلائی کے کاموں میں بھی اب اس کا ہاتھ بٹانے لگی تھیں۔ جب کہ رضیہ کا اکلوتا بیٹا لااُبالی اور کند ذہن تھا، پڑھنے لکھنے میں بھی اس کا دل نہ لگتا تھا۔ رضیہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ کچھ پڑھ لکھ کر اُس کا اور اپنی یتیم بہنوں کا سہارا بن جائے، لیکن بڑی مشکلوں سے وہ صرف میٹرک ہی پاس کرسکا۔
جس کے بعد اس کا زیادہ تر وقت آوارہ دوستوں کی محفلوں ہی میں گزرتا۔ کچھ عرصے بعد رضیہ کے دو بھائیوں کی شادی کے بعد گھر چھوٹا پڑنے لگا، تو اپنے ایک رشتے دار کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی، جو ان کے بیرونِ ملک جانے کی وجہ سے کافی عرصے سے خالی اور ہمارے پڑوس میں تھا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ہماری اُن سے اچھی علیک سلیک اور دوستی ہوگئی۔ اپنی سلیقہ مندی اور ہنرمندی سے رضیہ اور اُس کی بیٹیوں نے مل کر تھوڑے ہی عرصے میں اس اُجڑے دیار کو بڑی خُوب صُورتی اور نفاست سے آراستہ کردیا۔
اُس کی بیٹیاں نہ صرف شکل وصورت کی اچھی تھیں، بلکہ سلیقہ شعار اور بہترین تربیت کی وجہ سے خاندان بھر میں مشہور تھیں، اس لیے دونوں بڑی بیٹیوں کے اچھی جگہ رشتے ہوگئے۔ رضیہ کی والدہ، بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں نے بھی اس موقعے پر اس کا بھرپور ساتھ دیا اور سب کے تعاون سے اس نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی سادگی سے کردی، جب کہ چھوٹی بیٹیاں ٹیچنگ کرکے اور ٹیوشن پڑھاکر گھریلو اخراجات میں ہاتھ بٹانے لگیں، تو ان کی زندگی میں بھی ایک ٹھہراؤ سا آگیا۔ اکلوتے بیٹے کی شادی کی فکر ہوئی، تو جلد ہی اس کی شادی بھی اس کی پسند سے کردی، لیکن سکون اور اطمینان شاید اسے راس ہی نہیں تھا، بہو کے آتے ہی گھر میں وہی روایتی ساس، بہو اور نند، بھاوج کے جھگڑے شروع ہوگئے۔
بیٹا تو پہلے ہی لاابالی اور غیر ذمّے دار تھا، جلد ہی بیوی کے بہکاوے میں آگیا اور اپنی بیوہ ماں اور جوان بہنوں کو چھوڑ کر اپنی الگ دنیا بسالی۔ اور وہ رضیہ، جس نے زندگی میں دو بار ہجرتوں کا دُکھ سہا، اپنا گھر بار، وطن چھوڑا، جوانی میں بیوگی کی سفید چادر اوڑھ لی، محنت مشقّت کرکے حوصلے کے ساتھ اپنے پانچ بچّوں کی پرورش کی، اُس کا دل اگرچہ اندیشوں، وسوسوں اور غموں سے چُور چُور تھا، مگر ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھری رہتی۔ اکلوتے، جوان بیٹے کے چھوڑ جانے کا دُکھ سہہ نہ پائی۔ وہ اندر سے بالکل ٹوٹ چکی تھی، دیمک زدہ لکڑی کی مانند کھوکھلی ہوجانے کے باوجود اپنی بیٹیوں کے لیے بظاہر اب بھی زندہ رہنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی تھی۔
اسی بیماری کی حالت میں اس نے ایک اور بیٹی کی شادی کا فرض بھی ادا کردیا، لیکن حالات سے لڑتے لڑتے اب وہ کافی تھک چکی تھی، بالآخر زندگی کی بازی ہار کر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئی۔ تجہیز وتکفین کے بعد جب آخری دیدار کے لیے اس کی میّت گھر لائی گئی، تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ساری زندگی مشکلات جھیلنے اور دو ہجرتوں کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کا اطمینان وسکون تھا۔ شاید اس لیے کہ یہ ہجرت، اُس کی آخری ہجرت تھی۔ (روبینہ ادریس، گلشن اقبال،کراچی)