مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ 1970ء کا ذکر ہے، مَیں اُن دنوں لاہور کے ایک سرکاری کالج سے ایل ایل بی کر رہا تھا۔ فائنل امتحانات کے بعد فارغ اوقات میں اپنے ایک وکیل دوست کے پاس چلا جایا کرتا تھا، جس سے وکالت سے متعلق بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ ایک روز مَیں اپنے اسی وکیل دوست کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک ضعیف العمر شخص کمرے میں داخل ہوئے، اُن کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ ہم سے ہاتھ ملا کر وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ وکیل صاحب نے اُن کے لیے چائے منگوائی۔ پھر مجھ سے تعارف کرواتے ہوئے کہا۔’’یہ پولیس کے ایک ریٹائرڈ سپاہی ہیں، اُنھوں نے اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس دائر کر رکھا ہے، جس کی مَیں پیروی کر رہا ہوں۔
آج یہ پیشی بھگت کر آرہے ہیں۔‘‘ یہ جان کر مجھے بھی بہت افسوس ہوا۔ مَیں سوچنے لگا کہ جانے کن ظالموں نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اور اس عُمر میں اُنھیں اپنی جوان بیٹی کی بازیابی کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ مَیں نے ترحم آمیز نگاہوں سے اُن کی طرف دیکھا، تو محسوس ہوا کہ خاصے مغموم ہیں۔ چہرے پر غم کی پرچھائیاں بتدریج گہری ہوتی جارہی تھیں۔ اپنی تجسّس کی عادت سے مجبور ہوکر بالآخر میں نے اُن سے پوچھ ہی لیا۔ ’’کیا بات ہے، پیشی بھگتانے کے بعد آپ اِس قدر غم کی کیفیت میں کیوں مبتلا ہیں؟‘‘
وہ بھی شاید اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اِسی انتظار میں تھے کہ کوئی اُن سے پُرسشِ احوال کرے۔ چند ثانیے اُداس نظروں سے میری طرف دیکھنے کے بعد بولے۔’’عزیزم! اِس کیس کا تعلق23سال پہلے کے ایک جُرم سے ہے، جس کی خلش آج تک باقی ہے، اور اسی کی سزا بھگت رہا ہوں۔‘‘ مَیں نے ذرا قریب ہوکر اُس جُرم کی تفصیل چاہی، تو کہنے لگے۔ ’’قیامِ پاکستان سے قبل مَیں پولیس کے محکمے سے وابستہ ہوچکا تھا۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سرکاری ملازمین کی منتقلی شروع ہوئی، تو میری خواہش پر مجھے پاکستان بھیج دیا گیا۔ اور پھر میری ڈیوٹی مشرقی پنجاب سے اغوا شدہ مسلمان لڑکیوں کو بازیاب کروا کر پاکستان لانے پر لگادی گئی۔ ہجرت کے دوران گم شدہ لڑکیوں کی بازیابی کے لیے ہمیں مختلف شہروں میں بھیجا جاتا، اسی غرض سے ایک اطلاع پر مجھے ایک ساتھ کانسٹیبل کے ساتھ امرتسر بھیجا گیا، جہاں سکھوں کے گھروں میں لاتعداد مسلمان لڑکیاں محبوس تھیں۔ پانچ چھے لڑکیوں کی بازیابی کے بعد ہم ایک سِکھ کے گھر پہنچے۔
اطلاع کے مطابق اُس کے گھر میں ایک لڑکی موجود تھی۔ ہم نے اُس سے لڑکی کی بابت پوچھا، تو اُس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔’’لڑکی تو میرے پاس موجود ہے، لیکن میں اُسے واپس نہیں کروں گا، البتہ تم چاہو، تو ہم اُس کے عوض قیمت دے سکتے ہیں۔‘‘ اُس نے یہ بات ایک ہی سانس میں کہہ دی، جس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وہ لڑکی واپس نہیں کرے گا۔ تاہم، اس کی پیش کش سے میرے دل میں لالچ آگئی۔ اپنے فرض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مَیں نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا۔ اُس نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں رضامندی کا اظہار کردیا۔
جس کے بعد ہم نے سِکھ کی پیش کش قبول کرلی۔ اُس نے مقررہ رقم 14روپے مجھے تھمادی، جو ہم نے آپس میں بانٹ لی اور لڑکی کے مطالبے سے دست بردار ہوکر واپس چل پڑے۔ جانے لگے تو اسی دوران گھر کے اندر سے آواز آئی۔ ’’وے ویرا، مینوں لے چل‘‘ (اے بھائی! مجھے لے چلو)، لیکن ہم سُنی اَن سُنی کرکے چلتے بنے۔ اگرچہ راستے میں میرا ضمیر مجھے لعن طعن کرتا رہا، لیکن آنکھوں میں ہوسِ زر کی پٹّی اور سر پر پیسے کا بھوت سوار تھا۔ ہم پیچھے دیکھے بغیر اپنے ٹھکانے پر آگئے۔
پھر دن ہفتے، اور ہفتے مہینوں میں ڈھل گئے۔ اس دوران شادی کے بعد بچّے بھی پیدا ہوگئے، حتیٰ کہ ریٹائر ہوگیا۔ تاہم، وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھی کو اِس کی کیا سزا ملی، ریٹائرمنٹ کے بعد میری اُس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن شاید یہ اُسی معصوم بچّی کی آہ و بکاکی سزا اور مکافاتِ عمل ہے کہ چند مہینے پہلے میری چہیتی جوان بیٹی کو کسی نے اغوا کرلیا۔
کئی ماہ کی چھان بین کے بعد اغوا کنندگان کا پتا چلا، تو مَیں نے اُن کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ جس کی تاریخ پر تاریخ چل رہی ہے اور پیشیاں بھگت رہا ہوں، مگر اغوا کنندگان میری بیٹی میرے حوالے کرنے پرآمادہ نہیں، البتہ انھوں نے کسی کے ذریعے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ اگر تم اپنی بیٹی کو واپس لینا چاہتے ہو تو 700روپے لے کر آجاؤ، بقول ان کے اُنہوں نے میری بیٹی کو کسی سے خریدا ہے۔
اب آپ ہی بتائیے، ایک ریٹائرڈ سپاہی اتنی خطیر رقم کہاں سے لائے؟ یہی وجہ ہے کہ میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں۔ آج سے 23برس قبل قوم کی ایک معصوم بیٹی کو فروخت کرنے پر 7 روپے مجھے ملے تھے اور قدرت کا انصاف دیکھیں کہ اب مجھے اپنی سگی، چہیتی بیٹی کی واپسی کے لیے 700روپے درکار ہیں۔‘‘
اپنی دردناک بپتا سُنانے کے بعد بوڑھے سپاہی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ مَیں اُس کے آنسوؤں کی تاب نہیں لاسکتا تھا، نہ ہی اس کی مدد کے لیے اتنی بڑی رقم کا کہیں سے بندوبست کرواسکتا تھا۔ سو، چپ چاپ وہاں سے اُٹھ آیا، لیکن اب جب کبھی اِس واقعے کو یاد کرتا ہوں، تو مکافاتِ عمل کا سوچ کر ہی رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔ (محمد عارف قریشی، فرنیچر مارکیٹ، بھکّر)