یومِ آزادی کسی بھی قوم کا یادگار دن ہوتا ہے، لیکن آج پاکستانی نوجوان 14 اگست کے روز جس انداز سے جشنِ آزادی مناتے ہیں، وہ نہ صرف آزادی کے مفہوم کی توہین، بلکہ ہماری اجتماعی غفلت کا بھی مظہر ہے، کیوں کہ یومِ آزادی کا مطلب بے راہ روی، عُریانی، ہُلّڑ بازی اور شوروغل کی آزادی ہرگزنہیں۔
بدقسمتی سے آج اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں جشنِ آزادی شور مچاتے موٹرسائیکلز کی وَن وِیلنگ، کانوں کےپردے پھاڑ دینے والے باجے اورہارنز بجانے، ڈھول کی تھاپ پر ناچنے، بھنگڑے ڈالنے اور پارکس میں خرافات کا دن بن چُکا ہے۔
مَن چلے نوجوان 13اگست کی رات کو’’دیوانگی کی رات‘‘ میں بدل دیتے ہیں اور طوفانِ بدتمیزی میں قوم کی اصل آواز دب اور سبزہلالی پرچم کی عظمت محض فوٹو شوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔ نیز، جشنِ آزادی کے نام پر ایسی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں کہ جن کا ہماری تہذیب اور دِین سے کوئی تعلق ہی نہیں، جب کہ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی بعض ایسی حیاباختہ ویڈیوز بھی وائرل ہوتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ جشنِ آزادی کےنام پر یہ سب کچھ اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ہورہا ہے۔
اس افسوس ناک صُورتِ حال کو دیکھ کر صاحبانِ علم و دانش کا دل تو خُون کے آنسو روتا ہےکہ کیا ہمارے بزرگوں نے اِس دن کے لیے بےبہا قربانیاں دی تھیں؟ کیا تحریکِ پاکستان کے شہداء نے اِس لیے اپنی جانیں نثار کی تھیں کہ ان کی اولاد یومِ آزادی پہ سڑکوں پر طوفانِ بدتمیزی مچائے؟
کیا قیامِ پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی اسلامی اقدار کو پس پُشت ڈال کر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کریں؟ جشنِ آزادی کے موقعے پر نوجوانوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر چیختی چلاتی اور وَن وِیلنگ جیسے خطرناک عمل کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف اپنی جانوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں، بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر برس 14اور 15 اگست کو درجنوں نوجوان حادثات کا شکار ہو کر زخمی یا جاں بحق ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس روش پر چلنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے، جب کہ سب سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ ہم نے ان تمام خرافات کو ’’نوجوانوں کا جوش وجذبہ‘‘ قراردے کر نظرانداز کرنا شروع کردیا ہے۔ شور شرابے کو ولولہ اور بے ہودگی کو روشن خیالی کا نام دے دیا ہے۔
ہمارے بچّے، جو آزادی کی قدروقیمت جاننے کے مستحق ہیں، اب اِن منفی رجحانات کی جانب راغب ہورہے ہیں اور والدین اورسرپرست بھی اُن کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں۔ دوسری جانب میڈیا اور اشتہاری مہمّات بھی اس زوال کی آب یاری کر رہی ہیں۔
جشنِ آزادی کے اشتہارات میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کے ساتھ مغربی لباس میں ملبوس تھرکتے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو دِکھا کر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہی ’’آزادی‘‘ ہے، حالاں کہ حقیقی آزادی کا مطلب ایک ایسی فضا ہے کہ جہاں انسان فکری، مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر آزاد ہو۔
جہاں نوجوان اپنی شناخت، اقدار اورنظریے سے جُڑا ہوا ہو۔ جہاں قوم اپنے بزرگوں کی قُربانیوں کو یاد رکھے،اُن کے مِشن کوآگے بڑھائے اوراُن کےنظریے کی پاس داری کرے۔ نیز، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کا مطلب محض کسی کی قید سے نجات نہیں بلکہ فکری و روحانی طور پر آزاد ہونا ہے۔ اگر ہمارا نوجوان اپنی تہذیب سے بےگانہ اور اپنے دِین سے دُور ہوجائے اوراپنے جشنِ آزادی کو غفلت اور گُم راہی میں بدل دے، تو یہ آزادی نہیں، غلامی ہی کی ایک قسم ہے، جس نے طوق و سلاسل کے بغیر ہی اذہان و قلوب کو جکڑ رکھا ہے۔
یاد رہے، پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، جس کی بنیاد ’’لا الٰہ الاّ اللہ‘‘پر رکھی گئی۔ قائدِ اعظمؒ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’پاکستان اُسی وقت ایک کام یاب ریاست بنے گا کہ جب ہم اُسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلائیں گے۔‘‘ مگر آج ہم نہ صرف ان اصولوں کو فراموش کر چُکے ہیں، بلکہ اُن کا مذاق اُڑانا بھی اپنا شیوہ بنالیا ہے اور جو قوم، آزادی کے مقصد کو فراموش کردے، اپنی اقدار کو باعثِ شرم اور اپنے ہی دِین کو بوجھ تصوّر کرنے لگے، وہ کبھی ترقّی نہیں کرسکتی۔
آج ہمیں اجتماعی طور پران منفی رجحانات سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو یومِ آزادی منانے کی ترغیب دینے سے کہیں زیادہ ضروری اُنھیں ’’ شعور و فہمِ آزادی‘‘ دینا ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ، علمائے کرام، ذرائع ابلاغ اور والدین سب کو مل کراپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ آزادی کا مطلب ذمّے داری، وقاراوراصولوں کی پاس داری ہے۔
جشنِ آزادی منانا غلط نہیں، مگر اسے ایک مقصد، شعور اور وقار کے ساتھ منانا چاہیے۔ 14 اگست کے روز ہمیں اپنا احتساب اوراس عہد کی تجدید کرنی چاہیے کہ ہم اپنے مُلک، نظریے اور دِین کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں آزادی کے اصل مفہوم سے رُوشناس ہوں، تو ہمیں آج ہی سے خُود کو بدلنا ہوگا۔
والدین کو اپنی اولاد کو تہذیب و شائستگی سکھانی ہوگی، اساتذہ کو کردارسازی، تعلیم پر مقدّم رکھنی ہوگی اور ریاست کو اقدار کی حفاظت کو، اوّلین ترجیح بنانا ہوگا۔ وگرنہ وہ دِن دُور نہیں کہ جب جشنِ آزادی صرف شور، آتش بازی اور ہنگامےکا نام بن کے رہ جائے گا اوراس کی اصل رُوح ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی۔ سو، جشنِ آزادی کو عزت واحترام، تشکّرو احسان کےجذبات کے ساتھ منائیں، تبھی یہ آزادی نسلوں تک باقی رہے گی۔