• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20 سالہ ادیب، نورا لدین ظہیر کی زندگی کے مختصر اوراق
20 سالہ ادیب، نورا لدین ظہیر کی زندگی کے مختصر اوراق 

یکم نومبر 2005ء کو نور الدین ظہیر نے شہر لاہور میں پہلی سانس لی۔ وہ عام بچّوں کی طرح تھا۔ وقت گزرتا رہا، نور الدین نے زندگی کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو اچانک اُس کی زندگی نے پلٹا کھایا۔

وہ اپنے بہن بھائی کی نسبت کچھ زیادہ شرارتی تھا۔ ایک دن، جو عام دنوں ہی کی طرح تھا، وہ بیڈ پر کھیل رہا تھا کہ اچانک ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ پہ چھلانگ لگاتے ہوئے گر گیا، دونوں بیڈوں کے درمیان لوہے کی ایک راڈ لگی تھی، جب وہ گرا تو راڈ اُس کی کمر پہ لگ گئی۔ گھر والے اُسے فوری چلڈرن اسپتال لے کرگئے۔

اُس وقت تک وہ کومے میں جا چکا تھا، اُمید و نا اُمیدی کے درمیان ڈاکٹروں نے چیک اپ کرکے فوری علاج شروع کیا۔ وقت کے ساتھ علاج کا دورانیہ بڑھتا رہا، چند ماہ علاج جاری رہا، رفتہ رفتہ حالت بہتر ہوگئی کہ اسپتال سے گھر آگیا لیکن چیزوں کو پکڑ کر چلنے لگا۔ 12سال کی عمر میں چلنا پھرنا ختم ہوگیا اور وہ بیڈ پہ آ گیا۔

اس دوران اہل خانہ نہ صرف لاہور، اسلام آباد بلکہ دیگر تمام شہروں کے بڑے چھوٹے اسپتال میں علاج کے لیے گئے لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ بچہ اب نارمل بچوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ 16سال تک والدہ کی نگرانی میں پرورش پائی 3سال قبل والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ان کا انتقال ہوگیا۔ اب والد دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈیزائنر ہیں، بڑے بھائی آرٹسٹ ہیں ، بہن ڈاکٹراور نور الدین لکھاری ہے۔

نور الدین اسکول نہ جاسکا، کیوں کہ معذوری کی وجہ سے اُسے نارمل بچوں کے اسکول میں داخلہ نہیں مل سکا۔ اسپیشل بچوں کے اسکول میں داخلے کی کوشش کی گئی تو اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا ہم ذہنی معذور بچوں کو داخلہ دیتے ہیں جسمانی معذور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمارے پاس کوئی انتظامات نہیں ہیں۔

چناںچہ نورالدین نے جو کچھ پڑھا وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے پڑھا اور ایسا پڑھا، سمجھا، لکھا کہ نہ صرف شاعری کرنے لگا، بلکہ پہلی کتاب شاعری کی ہے، جو 2020ء میں شائع ہوئی۔ یہ رومن انگلش میں لکھی جانے والی شاعری کی کتاب ہے، جس کا نام مسافر(Traveler) ہے۔

اس کا انتساب اپنی والدہ محترمہ کے نام کیا ہے۔ ذیل’’مسافر ‘‘ سے چند منتخب اشعار ملا حظہ کریں۔

تاریخ میری تھی عجیب

جہاں دیکھوں تو نظر آئے

کل ندی کے پاس

اور آج سوکھے پہاڑوں میں

شاید میری راہوں میں تیرے جیسا کوئی نہیں

میں انجان مسافر تیری گلی میں

نہ جانے کیوں؟ اپنا سایہ بھول گیا

نور الدین کی دوسری کتاب بہ عنوان ’’سوال ‘‘شاعری اور نثر پر مشتمل ہے۔ یہ 2024ء میں شائع ہوئی۔ بقول نورالدین، میری دوسری کتاب دراصل خود سے اور معاشرے سے کیے جانے والے سوالوں پر ہے۔ سوال ایک ایسا لفظ ہے جو مجھے اکثر چیزوں پر تجسس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ 

کہتے ہیں جواب ایسا ہو کہ کوئی سوال نہ رہے، پر میں کہتا ہوں کہ سوال ایسا ہو کہ اس کا کوئی جواب نہ رہے۔ اس کتاب میں لکھے جانے والے میرے سوالات اتنے کٹھن نہیں ہیں لیکن ان کا جواب بعض اوقات ہم دے نہیں پاتے، میرے یہ سوال زیادہ تر معاشرے سے نہیں بلکہ اپنے نفس سے ہیں، انہیں لکھتے وقت میں انہیں اپنے دل ودماغ میں دہرا رہا تھا، مگر چند سوالات کا جواب نہ دے سکا۔ اس کتاب سے بھی چند اشعار ملا حظہ کریں۔

کاٹ رہا ہے فصل، زندگی کے سوالوں میں

کٹ رہی ہے عمر، تیرے جوابوں میں

ڈھونڈتا رہا تھا تجھے، وہ اپنے خوابوں میں

مگر مل گیا تھا تو اسے، لفظی حوالوں میں

نور الدین ظہیر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میری فیملی اور گھر والوں نے میرا بہت ساتھ دیا، کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ مجھے کبھی مایوسی کے اندھیروں میں جانے ہی نہیں دیا۔ میں نے بھی اپنی معذوری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور عہد کیا کہ زندگی میں کچھ کر کے دکھاؤں گا۔

آج میری پہچان ایک لکھاری کے طور پر ہو رہی ہے۔ نور الدین کی خواہش ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کریں اور ان سے کہیں کہ مجھ جیسے جسمانی معذور افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں لیکن حکومتی سطح پر ہمارے لیے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے لیے تعلیمی ادارے نہیں ہیں، جو ادارےا سپیشل بچوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ جسمانی معذور بچوں کو پڑھانے سے انکار کرتے ہیں۔ 

والدین بھی معذور لوگوں کے حوالے سے بچوں کو آگاہی دیں، انہیں بتائیں کہ یہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں۔ بچّے بھی اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں اپنے شوق اور مشاغل پر توجہ دیں۔ اپنی شناخت بنائیں۔ خود کو پہچانیں۔ قائداعظم کے فرمان اور اقبال کی شاعری میں چھپے پیغام کو سمجھیں اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے محنت کریں۔