78 ؍برس پہلے 10اگست 1947ء کو اتوار کا دن تھا۔ صبح 10 بجے کراچی کے اسمبلی چیمبرز میں دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس روز کی کارروائی میں دستور ساز اسمبلی کے عارضی چیئرمین کا انتخاب، ارکان اسمبلی کی طرف سے چیئرمین کو اپنے کاغذات رکنیت پیش کرنا اور حاضری رجسٹر میں دستخط کرنا نیز دستور ساز اسمبلی کے صدر کے انتخاب کے قواعد طے کرنا شامل تھا۔ لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی کے عبوری سربراہ کے طور پہ جوگندر ناتھ منڈل کا نام پیش کیا۔ خواجہ ناظم الدین نے اس تجویز کی حمایت کی چنانچہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی سربراہی نشست پر بیٹھنے کی سعادت جوگندر ناتھ منڈل کو حاصل ہوئی۔ اجلاس اگلے روز تک ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے روز 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس باقاعدہ سربراہ کے انتخاب سے شروع ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے کاغذات نامزدگی سات ارکان کی طرف سے پیش کیے گئے۔ قائداعظم دستور ساز اسمبلی کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ قائداعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کے ہمراہ ڈائس پر گئے اور تالیوں کی گونج میں صدر دستوریہ کی نشست سنبھالی۔ اس کے بعد لیاقت علی خان، کرن سنکر رائے، ایوب کھوڑو، جوگندر ناتھ منڈل، ابوالقاسم خان، بیگم جہاں آرا شاہ نواز نے تہنیتی اظہار خیال کیا۔ ان تقاریر میں قائد حزب اختلاف کرن سنکر رائے کی تقریر کا ایک ٹکڑا قابل ذکر ہے۔ ’جناب عالی! میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اس ایوان میں کانگرس کی پالیسی بیان کروں گا۔ جناب ہم ہندوستان نیز پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر خوش نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ اس سمجھوتے پر دو عظیم سیاسی جماعتوں نے اتفاق کر لیا ہے۔ ہم پوری وفاداری کے ساتھ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ (تالیاں ) ہم پاکستان کی شہریت کو پوری ذمہ داری سے قبول کرتے ہیں۔ جناب عالی۔ آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ ریاست کی قیادت سنبھالیں جس میں مسلمان ہی نہیں، ہندو اور دوسرے گروہ بھی شامل ہیں۔ ہم آپ کی قیادت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور آپ کی پوری حمایت کریں گے۔ جناب عالی، اگر آپ کے تخیل میں موجود پاکستان ایک سیکولر جمہوری ریاست ہے۔ ایک ایسی ریاست جو شہریوں میں ذات پات اور عقیدے سے قطع نظر برابری کا سلوک کرتی ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ سے پوری طرح تعاون کریں گے‘۔ ان تقاریر کے جواب میں قائداعظم نے اپنی جوابی تقریر میں فرمایا۔ ’آپ میں سے ہر ایک کی، قطع نظر اس سے کہ وہ کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے، اس کا رنگ، ذات پات یا عقیدہ کیا ہے، پہلی، دوسری اور آخری حیثیت اس ریاست کا شہری ہونا ہے اور اسے دیگر تمام شہریوں کے مساوی حقوق، مراعات اور فرائض حاصل ہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور مساوی شہری ہیں۔ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ کو پاکستان کی ریاست میں اپنی مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی پوری آزادی ہے۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں‘۔
قائد اعظم نے مذہبی آزادی اور سیکولر شہریت کے دونوں اصولوں کا باہم تعلق بیان کرتے ہوئے کہا۔ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ ایسا کسی مذہبی اصطلاح میں نہیں ہو گا کیونکہ مذہب ہر فرد کا نجی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے‘۔ قائد اعظم کی اس تقریر کے جواب میں دستوریہ کے رکن مولاناشبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947 ء کو اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی 11 اگست 1947 ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا جواب تھا۔ چند جملے ملاحظہ ہوں۔ ’میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہون احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی‘۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو‘۔ شبیر احمد عثمانی کا یہ بیان محض اتفاقیہ نہیں تھا۔ اس میں نوکر شاہی اور مخصوص سیاسی حلقوں کے علاوہ مذہبی گروہوں کی رائے بھی شامل تھی۔ کراچی کی احتشام الحق تھانوی اکادمی نے 1993ء میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی آپ بیتی شائع کی تھی جس کے صفحہ 37میں قائداعظم کی اس تقریر کو ’پاکستان کی فکری تاریخ کا پہلا حادثہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا گیا تھا۔
’’مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے گورنر جنرل نے 11اگست 1947ء کو پہلی پالیسی تقریر کی اور فرمایا کہ پاکستان میں نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، نہ عیسائی نہ پارسی، سب پاکستانی ہیں اور سب اس مملکت کے یکساں شہری ہیں، سب کا حکومت میں برابر کا حصہ ہے۔ ہندو آزاد ہیں وہ اپنے مندروں میں جائیں۔ عیسائی اپنے گرجوں میں اور مسلمان اپنی مسجدوں میں، مذہب ہر شخص کا شخصی معاملہ ہے۔ حکومت کے کاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو اس سے مولانا کے دل کو اور انکے جذبات صادقہ کو سخت ٹھیس لگی۔ اس منظر نے مولانا (احتشام الحق تھانوی) کو مزید تڑپا دیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، مملکت خداداد اور اسلام کے نام پر حاصل کیے جانیوالے ملک کا پہلا وزیر قانون اور دستور ساز اسمبلی کا چیئرمین جوگندر ناتھ منڈل ہے۔ مولانا کے نزدیک یہ نظریہ پاکستان سے پہلا انحراف تھا‘‘۔ جاننا چاہیے کہ قائد اعظم کی پالیسی تقریر نظریہ پاکستان سے انحراف نہیں تھا بلکہ یہ انحراف قائد اعظم کی وفات کے ٹھیک چھ ماہ بعد قرارداد مقاصد کی صورت میں رونما ہوا اور پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا بنیادی سبب ہے۔