رابعہ فاطمہ
دینِ اسلام نے خواتین کےحصولِ تعلیم پر پابندی عائد کی ہے اور نہ ہی صنفِ نازک کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور عملی زندگی میں کردار ادا کرنے سے روکا ہے، لیکن اس کی عزّت و آبرو کی حفاظت کے لیے کچھ حدود و قیود ضرور مقرّر کی ہیں۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم میں فحاشی و عریانی عام ہوجائے، تو وہ قوم تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
سو، بے حیائی کے سدِّباب کے لیے ضروری ہے کہ خواتین پردہ اورمَرد اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔ دینِ اسلام نے پردے اور غُضِ بصر کی اہمیت پر خاصا زور دیا ہے۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُمّت کی پاکیزہ ترین خواتین یعنی ازواجِ مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ کو بھی اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حُکم دیا گیا۔
اس ضمن میں سورۃالاحزاب کی آیت نمبر 53 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اور جب تم اُن سے کوئی چیز مانگو، تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دِلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔“ اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ مَردوں اور خواتین کے دِلوں کی پاکیزگی کے لیے ان کے درمیان پردہ ضروری ہے،کیوں کہ جب ہمارا باطن بیماریوں سے محفوظ رہے گا، تو معاشرہ بھی فحاشی و عریانی سے بچارہے گا۔
موجودہ پُرفتن دَور میں پردہ ہی خواتین کو تحفّظ فراہم کرسکتا ہے۔ آج جدیدیت کے نام پر عریانی و فحاشی کو عام کرنے والا نام نہاد روشن خیال طبقہ خواتین کی ذہن سازی میں جُتا ہوا ہے۔ یاد رہے، اسلام نے عورت کو ہرگز چار دیواری میں قید نہیں کیا، بلکہ اُسے گھر سے باپردہ ہو کرنکلنے کی اجازت دی ہے۔
سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر59میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور اپنی صاحب زادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے اُوپر ڈالے رکھیں، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اس آیت میں لفظ ”جلابیب“ آیا ہے، جس کے حوالےسےابنِ کثیر نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ”یہ وہ چادرہے، جو دوپٹے کےاوپر اوڑھی جاتی ہے۔“ علاوہ ازیں، انہوں نے ابنِ عباسؓ کا یہ قول بھی نقل فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حُکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں، تو اپنے سَروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر چہروں کو چُھپالیں اورصرف ایک آنکھ (راستہ میں دیکھنے کے لیے)کُھلی رکھیں۔‘‘ اِس سے معلوم ہوا کہ عورت گھرسے باہر قدم نکالتے وقت اپنی زیب و زینت کو چُھپا لے۔
آج بعض طبقات کی جانب سے یہ سوال بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ اسلام نے صرف عورت ہی پر پردے کی پابندی کیوں عائد کی ہے؟ تو اس سوال کا جواب ہمیں سورۃ النّور کی آیت نمبر 30 میں ملتا ہے کہ ”مسلمان مَردوں کو حُکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے۔ بےشک، اللہ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے۔“ اس آیت میں مسلمان مَردوں کو بھی غُضِ بصر اور حفظِ فروج کا حُکم دیا گیا ہے۔
چناں چہ بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ! راستوں میں بیٹھے بغیرہماراگزارا نہیں، ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ تو آپﷺ نےارشاد فرمایا۔ ’’اگر راستوں میں بیٹھے بغیر تمہیں کوئی چارہ نہیں، تو راستے کا حق ادا کرو۔‘‘صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا۔ ’’راستے کا حق کیا ہے؟‘‘ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنا۔‘‘
یاد رہے، نگاہوں کی حفاظت انتہائی ضروری اَمرہے،کیوں کہ اسی کے ذریعے دل میں بیماری پیدا ہوتی ہے۔ یعنی بےحیائی کا آغاز ہی بدنگاہی سے ہوتا ہے۔ چناں چہ نبیٔ کریم حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ”نگاہ شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بُجھا ہوا ایک تیر ہے۔“ (معجم الکبیر) آیت میں دوسرا حُکم یہ ہے کہ ”اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔“
یعنی بدکاری اورحرام کاموں سے بچیں، جس کا ایک طریقہ تو ”نگاہوں کی حفاظت“ ہے اور دوسرا یہ کہ وہ تمام اعضا، جن کا چُھپانا ضروری ہے، اُنہیں چُھپائیں اور پردے کا اہتمام کریں۔ اِسی طرح نگاہوں کی حفاظت کا حُکم خواتین کو بھی دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اور مسلمان عورتوں کو حُکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔“ (النّور31:)
حضرت اُمِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ’’مَیں اور حضرت میمونہؓ بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر تھیں، تو اُسی وقت حضرت ابنِ اُمِّ مکتومؓ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس ﷺ نے ہمیں پردے کا حُکم فرمایا، تو مَیں نےعرض کیا۔ ’’وہ تو نابینا ہیں، ہمیں دیکھ اور پہچان نہیں سکتے۔‘‘اس کے جواب میں حضورِ پُرنورﷺ نے ارشادفرمایا۔ ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور کیا تم اُن کو نہیں دیکھتیں۔‘‘ ( ترمذی)
دَورِحاضرمیں تو ہم جنس پرستی کا فتنہ بھی سَر اُٹھائے کھڑا ہے، جو بے پردگی اور بےحیائی کی کُھلی علامت ہے۔ اس حوالےسےمسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’ایک مَرد دوسرے مَرد کے ستر کی جگہ نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کی جگہ دیکھے اور نہ مَرد دوسرے مَرد کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے۔“
نیز، پردے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عورت جب کسی نامحرم سے مجبوراً ہم کلام ہو، تو لہجے میں سختی اختیارکرے، تاکہ مخاطب کے مائل ہونے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے۔ چناں چہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32میں فرمانِ الہٰی ہے کہ ”اے نبیؐ کی بیویو! تم اَورعورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے، ہاں اچّھی بات کہو۔“
اس آیت میں خواتین کو نامحرم مَردوں سے مجبوراً ہم کلام ہونے کی صُورت نرم لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، لیکن اگر ظالم حُکم راں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو ہر مسلمان عورت حضرت زینبؓ کی مثال کو سامنے رکھے اور پس و پیش سے کام نہ لے۔
غرض یہ کہ پردے کی حالت میں اپنی ذمّے داری کو نبھاتے ہوئےصاف اور سچّی بات کرنا ایک مسلمان عورت کی شان ہے۔ اس آیت کے تحت علامہ احمد صاویؒ لکھتے ہیں کہ ’’ازواجِ مطہراتؓ اُمّت کی مائیں ہیں اور کوئی شخص اپنی ماں کے بارے میں بُری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصوّر تک نہیں کرسکتا، لیکن اس کے باوجود ازواجِ مطہراتؓ کو نامحرم سے بات کرتے ہوئے نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا، تاکہ منافقین کے دل میں کسی قسم کا لالچ پیدا نہ ہو، کیوں کہ اُن کے دِلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا،جس کی بناء پراُن کی طرف سے کسی بُرے لالچ کا اندیشہ تھا۔ اس لیے نرم لہجہ اپنانے سےمنع کرکےیہ ذریعہ ہی بندکردیاگیا۔ (صاوی)
پردے پراعتراض کرنے والا طبقہ یہ کہہ کر بھی مسلمان خواتین کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہےکہ کیا عورت بناؤ سنگھار بھی نہ کرے اور اچّھے کپڑے بھی نہ پہنے؟ سورۃ النّور کی آیت نمبر 31 میں اس سوال کا جواب یوں دیا گیا ہےکہ ’’اوراپنی زینت نہ دکھائیں، مگر جتنی خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر۔ الخ…“ یعنی خواتین صرف اپنے محارم پر اپنی زینت ظاہر کرسکتی ہیں، جب کہ آج کل ایسے عبائے بھی زینت میں شامل ہیں کہ جو جسم کی ہئیت کو واضح کرتے ہوں، جس کو دیکھ کر لوگ عورت کی جانب متوجہ ہوتے ہوں۔
مندرجہ بالا اسلامی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لیے اُن تمام اسباب اور ذرائع کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے کہ جو عریانی و فحاشی عام کر رہے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم پورے خلوص اور ایمان داری کے ساتھ دینِ متین پر عمل کرنے کا فیصلہ کریں۔ یاد رکھیں، ایک پاک باز، متّقی اور باپردہ خاتون معاشرے میں انقلاب لانے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔