رابعہ فاطمہ
پاکستان میں تعلیم کی فروغ پذیر شرح، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بڑھتی تعداد ایک طرف قابلِ فخر ہے، تو دوسری طرف گریجویٹ سطح کی بےروزگاری کا تناسب ایک بڑے قومی بحران کا بھی مظہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جامعات نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہی ہیں، تووہ باعزت روزگار سے کیوں محروم ہیں؟ یہ صورتِ حال نہ صرف تعلیمی نظام کے ناقص ہونےکا ثبوت ہے، بلکہ قومی ترقی کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ بھی ہے۔
بےروزگار گریجویٹس کا مسئلہ محض روزگار کی قلت یا معاشی جمود کا نہیں، نظامِ تعلیم اور عملی دنیا کے بیچ پائے جانے والے فاصلے کا بھی ہے۔ جامعات میں دی جانے والی تعلیم، عملی دنیا میں درکار مہارتوں سے غیر متعلق ہو چُکی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان ڈگری یافتہ تو ہیں، مگر کارآمد نہیں۔
بین الاقوامی ادارے جیسے ہارورڈ بزنس ریویو، ورلڈبینک، اور ILO اس معاملے پر متفق ہیں کہ ترقی پذیرممالک میں تعلیم اور روزگار کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ نوجوانوں کی معاشی محرومی کا سبب بن رہا ہے اور پاکستان اس عالمی رجحان کی ایک خاص مثال ہے۔
تعلیمی نظام اور مارکیٹ کی عدم مطابقت: پاکستان کا نظامِ تعلیم آج بھی زیادہ تر رٹّے، درسی کتب اورامتحانی نتائج پر مرکوز ہے۔ اس میں تنقیدی سوچ، مسئلہ حل کرنے کی مہارت، اورعملی تجربےکی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجتاً، طالب علم تعلیمی اسناد توحاصل کر لیتے ہیں، مگر جدید مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالنے سے قاصر ہیں۔
مارکیٹ اورصنعت تیزی سےتبدیل ہورہی ہے، خصوصاً ڈیجیٹل اکانومی، آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت کے میدانوں میں مہارت کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے، لیکن ہمارے تعلیمی ادارے آج بھی پرانی تدریسی تیکنیکس اور مضامین پر انحصار کرتے ہیں۔
جدید مضامین جیسے ڈیٹاسائنس، سائبر سیکیوریٹی یا بلاک چین جیسے شعبے اکثر جامعات میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ اساتذہ کی تربیت میں بھی جدت کی کمی ہے۔ زیادہ تر اساتذہ خود عملی دنیا سے ناآشنا ہیں۔ وہ طلبہ کو وہی سکھاتےہیں، جو انھوں نے برسوں پہلے سیکھا۔ یوں ہمارا شعبۂ تعلیم وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، پھر طریقۂ امتحانات بھی تخلیقی صلاحیتوں کوکچل رہا ہے۔
عموماً ایسے سوالات پوچھےجاتے ہیں، جو حافظے کا امتحان ہوتے ہیں، نہ کہ فہم یا تجزیے کا اور یہی سب عوامل مل کر ایسی نسل تیار کررہے ہیں، جو رسمی تعلیم یافتہ تو ہے، لیکن نہایت کم زورہنرکی حامل اور یہی خلا ’’گریجویٹ سطح کی بےروزگاری‘‘ کا سب سے اہم سبب بنتا ہے۔
جامعات اور صنعت کے مابین ربط کی کمی: پاکستان میں جامعات اور صنعت کے درمیان کوئی مؤثر ربط موجود نہیں۔ جامعات کا نصاب بنانے میں صنعتی ماہرین کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ ہی ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود ہے، جو دونوں کو مکالمے کے لیے یک جا کر سکے۔ جرمنی، سنگاپور اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں صنعتوں اور شعبۂ تعلیم کے درمیان باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں۔
انٹرن شپس، کوآپ پروگرامز اور جاب شیڈوز طلبہ کو عملی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگر انٹرن شپس کا رواج ہے بھی، تو وہ بھی نمائشی ہے، نتیجہ خیز نہیں۔ پاکستانی انڈسٹری خود بھی تحقیق و تربیت میں سرمایہ کاری سےگریز کرتی ہے۔
اسی سبب نہ نئی تحقیق وجود میں آتی ہے، نہ ہی مقامی طور پر نئی ٹیکنالوجی اپنائی جاتی ہے۔ جامعات کے تحقیقی مقالےصنعتی مسائل سے الگ تھلگ ہیں۔ جامعات کا رجحان بھی صنعتی ضروریات کی بجائے تعلیمی فضیلت پر رہتا ہے۔ وہ ایسے کورسز پڑھانے پر زور دیتی ہیں، جن کی مارکیٹ میں طلب کم یا صفر ہوتی ہے۔ مثلاً ہزاروں ایم اے اردو یا اسلامیات کے گریجویٹس پیدا کیے جارہے ہیں، جن کے لیے روزگار کے مواقع معدوم ہیں۔
اسکل گیپ، سافٹ اسکلز کی کمی: اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ اسکل گیپ ہے۔ پاکستان میں بھی یہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ جامعات جوتعلیم دے رہی ہیں، وہ عملی ہنر سے عاری ہے۔ سافٹ اسکلز جیسے ابلاغ، ٹیم ورک، قیادت، مسائل کا حل، وقت کی پابندی، اورجذباتی ذہانت، آج کے دَور میں اتنے ضروری ہیں، جتنی تیکنیکی مہارت۔ مگر ہمارے نظام میں ان اِسکلزکی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی۔
مائکروسافٹ، گوگل، اورPwCجیسی عالمی کمپنیز گریجویٹس کو صرف انٹرویوز ہی میں نہیں، ملازمت کے ابتدائی مہینوں میں اِن سافٹ اسکلز کی بنیاد پر منتخب یا مسترد کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایچ آرادارے بارہا شکایت کرتے ہیں کہ اُمید واروں کو بات چیت، وقت کے نظم اور تنقیدی سوچ کا علم ہی نہیں۔ اگر طلبہ کو ابتدائی تعلیم سے، جامعات تک سافٹ اسکلز کی باقاعدہ تربیت دی جائے،تو نہ صرف استعدادِ کار میں اضافہ ہوگا، وہ پیشہ ورانہ دنیا میں زیادہ پُراعتماد اور مؤثر بھی ثابت ہوں گے۔
مائکرو انٹرپرینیورشپ کا فقدان: عالمی سطح پر خُود روزگاری (Self-Employme) ایک اُبھرتا ہوا رجحان ہے، جو صرف ملازمت نہ ملنے کا متبادل نہیں، ایک تخلیقی، خُودمختار اور باعزت معاشی ماڈل بھی ہے، مگر پاکستان میں تعلیم کو اب تک محض ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
مائکرو انٹرپرینیورشپ، یعنی چھوٹے پیمانے پر کاروبار یا فری لانسنگ، وہ شعبے ہیں، جن میں نوجوانوں کےلیے زبردست مواقع موجود ہیں،مگر حوصلہ افزائی یا رہنمائی کا نظام موجود نہیں۔ مثلاً پنجاب حکومت کا e-Rozgaar پروگرام اگرچہ ایک اچھا آغاز ہے، مگر اس کی رسائی محدود اوراثرانگیزی کم ہے۔
نیز، زیادہ تر جامعات میں نہ کوئی انکیوبیشن سینٹر ہے، نہ ہی کاروباری تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ نوجوان اگر چھوٹے پیمانے پر بزنس شروع کرنا بھی چاہیں تو اُنہیں فنڈنگ، رجسٹریشن، ٹیکس، اورمارکیٹ تک رسائی جیسے مسائل درپیش ہوتے ہیں اوریہ رکاوٹیں اُنہیں دوبارہ بےروزگاری کےدھارے میں دھکیل دیتی ہیں۔ مائکروانٹرپرینیورشپ کی کام یابی کےلیے ایک مربوط پالیسی، ادارہ جاتی حمایت اورتعلیمی اداروں کی تربیت ناگزیر ہے۔
صنفی،علاقائی و معاشی رکاوٹیں: پاکستان میں خواتین کی شرحِ تعلیم میں اضافہ ہوا ہے، مگر روزگار میں اُن کی شمولیت بدستور کم ہے۔ خواتین گریجویٹس (خاص طور پر سائنس، انجینئرنگ کی) اکثر ملازمت سے باہر رہ جاتی ہیں۔ دیہی و قبائلی علاقوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کوروزگار کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کرنی پڑتی ہے، جس سے نہ صرف خاندانی مسائل جنم لیتے ہیں، شہری سہولتوں پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔
معاشی اعتبار سے پس ماندہ طبقےکے نوجوان نہ تو منہگے کورسز کرسکتے ہیں، نہ فنی تعلیم کے لیے درکار وسائل رکھتے ہیں، پھر عدم مساوات بھی بےروزگاری کو بڑھاوا دیتی ہے۔ صنفی تعصب، نقل و حرکت پر پابندی، خاندانی دباؤ جیسی رکاوٹیں بھی خواتین کو عملی زندگی میں مؤثر کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں۔ سو، اِن تمام رکاوٹوں کا حل معاشی مساوات، صنفی شمولیت اور علاقائی ترقی کو تعلیمی پالیسی کاحصّہ بنانے ہی سے ممکن ہے۔
واضح رہے، گریجویٹس کی بےروزگاری محض ایک اقتصادی مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کے تعلیمی، سماجی ڈھانچےکی گہرائیوں میں موجود خامیوں کا عکّاس ہے۔ یہ مسئلہ محض روزگار کی کمی نہیں، مہارت، ہم آہنگی، وژن اورعمل کی بھی قلت ہے۔ اگر ہمیں اپنے نوجوانوں کو باعزت، پائےدار روزگار کے قابل بنانا ہے، تو اپنی تعلیمی سمت اور صنعتی حکمتِ عملی دونوں کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ تعلیم کو مہارت، تحقیق اور اختراع کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
ساتھ ہی سافٹ اسکلز، مائکرو انٹرپرینیورشپ، اور علاقائی ترقی جیسے نکات کو قومی پالیسی کا محور بنانا ہوگا۔ اِسی صُورت ہم اپنی نوجوان نسل کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنا سکتے ہیں۔ یہ وقت عمل کا ہے، محض دعووں، تقریروں یا اسناد سے قومیں تعمیر نہیں ہوتیں۔ ہم نے اِس بحران کو موقعے میں بدلنا ہے، تو ہر ادارے، استاد، اور طالب علم کو اپنی سمت کا تعیّن کرنا ہوگا کہ خواب تب ہی تعبیر بنتے ہیں، جب ان کے لیے اجتماعی فہم، علمی بنیاد، اور ٹھوس عمل موجود ہو۔