• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
من حیث القوم ہم بھیڑ چال کے رسیا ہیں جو ایک بار شروع ہوجائے تو پھر چل سو چل۔ اڑتی سی خبر ہے کہ وطن عزیز کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی بعض شخصیات کی ’’شاندار خدمات‘‘ سے متاثر ہو کر انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینا چاہتی ہے۔ وائس چانسلر صاحب متعلقہ شخصیات کے ساتھ رابطہ کیلئے ہلکان ہوئے جارہے ہیں اور گرین سگنل ملنے سے پہلے ہی گوٹے کناری والے رنگ برنگے گائونوں کی تیاری کا آرڈر دے چکے ہیں۔ سر پر پہننے والے ہڈز کے بارے میں البتہ مشوش ہیں کیونکہ ’’اسامیوں‘‘ کے سروں کے سائز سے نابلد ہیں۔ موصوف کا یہ مشن اکیڈمک ایکٹویٹی کم اور پی آر کی مشق زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ ان کا خضوع خشوع دیکھ کر ہمیں اپنی ہڈبیتی یاد آگئی۔ برسوں پہلے جب ہم کچھ عرصہ کیلئے امریکہ کے شہر برکلے میں مقیم تھے۔ وہی بستی جہاں مشہور زمانہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا واقع ہے اور جہاں سے مستفید ہونے والے پاکستانیوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام بھی شامل ہے۔ ڈائون ٹائون میں واقع ہمارے مختصر گھر کا میل بکس ڈاک سے اٹا رہتا تھا، جسے ہم ویک اینڈ پر خالی کرتے اور ڈاک کے ڈھیر کو ایک نظر دیکھ لیتے۔ اگر کوئی کام کی چیز ہوتی تو الگ کرلیتے اور باقی کو ، جسے عرف عام میں جنک میل کہا جاتا ہے، کوڑادان کی نذر کردیتے۔ ایک اتوار ہم اسی مشق سے گزر رہے تھے کہ اس کباڑ سے بڑھیا قسم کے تین لفافے ہاتھ لگے۔ جن پر ہمارا پورا نام اور پتہ درج تھا۔
اشتیاق ہوا کہ دیار غیر میں کس کے نامے ہوسکتے ہیں؟ ایک ایک کرکے کھولا۔ پہلا برکلے آن لائن کالج کی طرف سے تھا۔ دوسرا کاسموپولیٹن یونیورسٹی نے بھجوایا تھا جبکہ تیسرے کا اہتمام نارتھ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی والوں نے کیا تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ کہ ان ’’تعلیمی اداروں‘‘ کے لیٹر پیڈز پر نہایت اہتمام سے لکھے اور ’’مسٹر سید‘‘ کو ایڈریس کئے گئے ان خطوط کا نفس مضمون کم و بیش ایک ہی تھا۔ مابدولت کو ان میں سے کسی بھی ادارہ سے آنریری پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے کی دعوت دی گئی تھی، اور طریق کار اس قدر آسان کہ کسی کی بھی رال ٹپک پڑے۔ لکھا تھا کہ باقاعدہ پی ایچ ڈی میں تو 5/6 برس لگ جاتے ہیں اور انسان محنت کر کرکے بائولا ہوجاتا ہے۔ ہزاروں، لاکھوں کا خرچہ اس کے علاوہ چنانچہ ہمارے ہاں سے آنریری ڈاکٹریٹ لیجئے اور زندگی کا لطف اٹھائیے۔ طریق کار بے حد آسان ہے۔ تفصیلی CV تیار کیجئے مگر ذرا مہارت کے ساتھ۔ اگر چاہیں تو اس سلسلے میں ہماری خدمات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ معروف شخصیات سے دو عدد تعارفی خطوط حاصل کیجئے۔ اس سلسلے میں بھی ہمیں آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔ ازراہ کرم یہ بتادیجئے کہ آپ کس شعبہ میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہیں گے، یعنی ڈاکٹر آف فلاسفی ، ڈاکٹر آف لاء ، ڈاکٹر آف لٹریچر یا پھر کسی اور فیلڈ میں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کیلئے ہم کوئی فیس چارج نہیں کرتے۔ البتہ اگر آپ ڈونیشن دینا چاہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائیگی بلکہ توقع ہے کہ آپ اپنی ’’مادرعلمی‘‘ کو معقول ڈونیشن ضرور عطا فرمائیں گے۔ جس کی کم از کم مالیت اور طریق کار سے آگہی کیلئے فلاں فلاں سے رابطہ کیجئے۔ ایک بات اور کہ اپروول یا ریجیکشن کے فیصلہ میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ لہٰذا پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر خدانخواستہ ریجیکشن ہوگئی تو بھی دل چھوٹا نہ کیجئے پھر سے اپلائی کریں۔ کامیابی یقیناً آپ کا مقدر ہے اور پی ایچ ڈی آپ کا استحقاق جو آپ کو مل کر رہے گی ، جلد یا بدیر۔ طریق واردات یہ ہے کہ ڈونیشن کے باوجود پہلی کوشش ناکام رہتی ہے۔ کوئی نہ کوئی اعتراض لگادیا جاتا ہے۔ عموماً تیسری یا چوتھی کاوش بارآور ہوتی ہے اور گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے۔ یونیورسٹی کے مونوگرام سے سجا کاغذ کا یہ خوبصورت ٹکڑا امیدوار کو بالعموم 15/20ہزار ڈالر میں پڑتا ہے۔ اور پھر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس سے کیا کیا فوائد کشید کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں مغرب کی ان دو نمبر ڈگریوں سے بعض لوگوں نے بڑے بڑے کام نکالے ہیں اور انہیں اصل سے بھی بڑھ کر کارآمد پایا۔
باہر کی اعزازی ڈگری کے مقابلہ میں میاں نواز شریف کو مقامی پی ایچ ڈی البتہ خاصی مہنگی پڑی۔ اسی برس 17؍جنوری کو اپنی پرانی درسگاہ گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) سے جسے وصول کرتے ہوئے وہ بڑے فارم میں تھے۔ چہرے پر مہینوں سے چھائی پژمردگی میں یکایک کافور ہوگئی تھی۔ انہیں اپنی جوانی اور طالب علمی کا زمانہ شدت کے ساتھ یاد آگیا تھا اور خواہش کی تھی کہ کاش وہ پھر سے مادر علمی کے طالب علم بن سکتے۔ ڈگری کے مہنگا ہونے کا شکوہ بھی لطیف پیرائے میں کیا تھا۔ فرمایا ، وائس چانسلر صاحب نے ڈگری بھی دی ہے اور ساتھ ہی سات ارب روپے کے فنڈز بھی مانگ لئے ہیں، اب مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ میں ڈگری لے رہا ہوں یا خرید رہا ہوں۔ میاں صاحب کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تو سندھ والوں کا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ چنانچہ چند ہی روز بعد خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی نے قائم علی شاہ کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کردی۔ یہی نہیں ، جامعہ سندھ نے سید خورشید شاہ اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کو ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری کا مستحق جانا۔ یادرہے کہ بہت پہلے اکتوبر 2011ء میں کراچی یونیورسٹی رحمٰن ملک کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نواز چکی تھی۔ میاں صاحب کی پیروی میں ان اصحاب نے اپنی اپنی جامعات کی کچھ خدمت کی ہے یا نہیں، اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ البتہ پچھلے دنوں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کو اس حوالے سے مایوسی ضرور ہوئی جسے مجوزہ میڈیکل کالج اور منسلکہ ہسپتال کیلئے اڑھائی ارب روپے کی خطیر رقم ایک دوست اسلامی ملک کی جانب سے بطور عطیہ ملنے کی پوری امید تھی۔ جس کا اعلان خصوصی کانووکیشن کے موقع پر ہونا تھا۔ جس میں اس ملک کی انتہائی اہم شخصیت کو ’’پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز‘‘ میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جو موصوف کی خرابی صحت کی بنا پر ان کے نمائندہ نے وصول کرنا تھی۔ سب انتظامات مکمل تھے۔ سونے چاندی کے کام والا خصوصی گائون بھی تیار تھا۔ مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ نہ جانے کیوں، ڈگری عطا ہوئی اور نہ ہی اڑھائی ارب کا اعلان، الٹا تقریب کے انتظام و انصرام پر اتنا خرچہ اٹھ گیا کہ منتظمین بیچارے خاصے دبائو میں آگئے۔
اعزازی ڈگری پانے والوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی پکی سند نہیں ہوتی اور بعض صورتوں میں واپس بھی لی جاسکتی ہے۔ جس کی مثال یونیورسٹی آف ایڈنبرا قائم کرچکی ہے۔ جس نے زمبابوے کے لیڈر رابرٹ موگابے کو 1984ء میں عطا کی جانے والی اعزازی ڈاکٹریٹ انسانی حقوق کی بے حرمتی اور کرپشن کے الزام پر 2007ء میں منسوخ کردی تھی، انہی الزامات پر یونیورسٹی آف میسا چوسٹس نے بھی موصوف کی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری واپس لے لی تھی۔ اور اب دنیا بھر کی موقرو معتبر جامعات اعزازی ڈگری کیلئے بہت پرکھ پرچول کرتی ہیں۔ اپریل 2009ء میں اریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی نے امریکی صدر اوباما کو یہ کہہ کر اعزازی ڈگری دینے سے انکارکردیا تھا، کہ موصوف فی الحال اس کے اہل نہیں۔ یہ ہاتھ پی ایچ ڈی سے فیضیاب ہونیوالے پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ آنیوالی حکومتیں جسے سیاسی تماشہ قرار دیکر منسوخ کرسکتی ہیں ۔ کاش وہ بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی مثال کو مشعل راہ بناتے، جنہیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1942ء میں ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری دینا چاہی تو آپ نے معذرت کردی تھی۔
تازہ ترین