• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سماج کی ایک بہت بڑی خصوصیت اسکی یونیورسٹیاں ہیں جنہیں دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ علمی برترتی کیساتھ ساتھ فکری تنوع، تنقیدی ماحول اور مکالمے کی کھلی روایت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اسی وجہ سے امریکی سماج میں نہ صرف ادارہ جاتی روایات نے اپنی گہری جڑیں پکڑیں بلکہ اس نے ہر فرد کو انفرادی شعور سے بھی آشنا کیا ہے۔ لیکن اب ٹرمپ ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ (MAGA) کے نعرے کی آڑ میں امریکی یونیورسٹیوں کے نصاب اور اسکی انقلابی تحقیق کی آزادی کو زیر اعتاب لارہے ہیں اور ساتھ ساتھ تارکین وطن، سیاہ فاموںاور مسلمانوںکو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی قرار دے رہے ہیں اور غزہ کے بھوکے بچوں کی تصاویر دکھانے والوں کو نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مطالعے کیلئے نئے اساتذہ کا تقرر، اب اسرائیل اور یہودی مطالعہ جات کے ادارے سے وابستگی کی شرط پرہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے کولمبیا یونیورسٹی نے شدید دباؤ میں آکر ٹرمپ سے معاہدہ بھی کر لیا ہے جس پر بے انتہا تنقید کی جا رہی ہے۔ مارچ 2025ء کے ایک معروف سائنسی جریدے نیچر کی تحقیق کے مطابق ٹرمپ نے یونیورسٹیوں میں جو ماحول پیدا کر دیا ہے، اسکی وجہ سے 75فیصد سائنسدانوں نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ماہرین صدر ٹرمپ کے ان فکری و علمی پابندیوں کے اقدامات کو امریکی سماج کی زوال پذیری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سوویت یونین کے مقابلے میں اپنی اسی فکری اور جمہوری اظہار رائے کو اپنی خصوصیات کے طور پر پیش کیا تھا۔ اسی وجہ سے 1982ء میں رونلڈ ریگن نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہی آزادیوں کے بل بوتے پر مارکسزم اور لینن ازم کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیگا لیکن آج ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اور ان کے نظریاتی ساتھی انہی اداروں اور سیاسی خیالات کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں جو سرد جنگ کے دوران، امریکی سماج کی خصوصیات تھیں۔ وہ MAGA کے نعرے کی آڑ میں کتابوں اورمتفرق سیاسی خیالات پر پابندی لگانے کیساتھ ساتھ، صحافتی آزادی اور اخباری تنظیموں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہیں مالی تعاون سے محروم کر رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں چارلی انگلش نے اپنے کالم میں سوویت یونین کے انہدام کی کئی وجوہات بیان کی ہیں اور اس میں ایک اہم وجہ سی آئی اے کی طرف سے ہزاروں کتابیں مشرقی یورپ اور سوویت میں اسمگل کرنا بھی شامل ہے تاکہ کیمونسٹ پارٹی کی سنسر شپ اور اسکے نظریات کو نشانہ بنایا جا سکے۔ انہی کتابوں میں چالیس کی دہائی میں لکھا گیا ایک ناول "1984'بھی تھا جوایک تخلیقاتی شاہکار تھا اور آمرانہ نظام کے خطرات سے سماج کو خبردار کرتا تھا۔ جارج اورویل جو اس ناول کے مصنف تھے انکا شمار سرگرم جمہوری سوشلسٹ مصنفین میں ہوتا تھا۔ اس سے پہلے بھی 1945ءمیں انہوں نے اپنا ایک مشہور ناول ”Animal Form“ بھی شائع کیا تھا جو اسٹالنسسٹ طرز حکومت پر تنقید تھی جس میں جانوروں کے ایسے گروہ کی کہانی بیان کی گئی جو اپنے کسانوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور نیا مثالی سماج بنانیکی کوشش کرتے ہیں۔ اس زمانے میں پولینڈ، سنسر شپ اور پروپیگنڈے کے نظام کا مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں ٹائپ رائٹر ز، فوٹو کاپی مشینز اور کاغذ تک کی رسائی بھی سرکاری اجازت نامے سے مشروط تھی۔ ایسے ماحول میں مشرقی یورپ کے لوگوں کو جارج اورول میں ایک غیر معمولی کشش محسوس ہونے لگی جس سے سوویت کمیونزم اندر سے کمزور ہوا، اسکی سنسر شپ کا نظام ٹوٹنے لگا اور عوام پر اسکی گرفت کمزور ہوگئی۔ یوں جون 1989ء میں اپوزیشن پارٹی سولیڈیرٹی نے وہاں کا الیکشن جیت لیا جس سے نہ صرف پولینڈ میں طوفان آیا بلکہ ایک سال کے اندر اندر تمام کیمونسٹ حکومتیں جمہوری طور پر بدلی جاتی رہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے اسباب میں سی آئی اے کے اس منصوبے کے اثرات کا قطعی طور پرتعین کرنا بہت مشکل ہے لیکن آج کی تاریخ ہمارے لیے سبق آموز ہے کہ وہی کتابیں اور مصنفین جنہیں سی آئی اے نے سرد جنگ کے دوران مشرقی یورپ اور سوویت یونین بھیجا تھا، آج امریکا میں ثقافتی قدامت پسند گروہوں اور امریکی حکومتوں کی طرف سے قابل اعتراض قرارد ی جا رہی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی علمی و فکری آزادی پر پابندیوں سے امریکی سماج کی ڈھائی سو سالہ ادارہ جاتی روایات کو شدید دھچکا لگے گا۔ لیکن بہرحال ایک سبق امریکہ کو سی آئی اے کی کتابیں اسمگل کرنے کی تاریخ سے ضرور سیکھنا چاہئے کہ سنسر شپ چاہے کمیونسٹوں کی طرف سے ہویا جمہوری حکومتوں کی طرف سے، یہ ان نظریات کی طلب کو بڑھا دیتی ہے جن پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جارج اورویل کے ناول 1984ء پر پابندی نے امریکی سماج میں اس کتاب کو مقبولیت کی نئی بلندیاں عطا کر دی ہیں۔

تازہ ترین