امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے مابین ملاقات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی عالمی برادری کی نظریں امریکی ریاست الاسکا کی جانب مرکوز ہوگئی تھیں،ملاقات کا مقام اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ آج سے فقط 150سال قبل الاسکا روس کا حصہ تھا جسے امریکہ نے 72لاکھ ڈالر میں روس سے خریداتھا، اس زمانے میں الاسکا کی خرید کو امریکی حلقوں میں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن بعد ازاں الاسکا میں سونے، تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت نے امریکہ کو معاشی قوت میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔روسی صدر پوتن کو الاسکا میں قائم امریکی فوجی اڈے میں مدعو کیا گیا جہاں انکے اعزاز میں ریڈ کارپٹ استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا،یوکرائن روس جنگ کے تناظر میں ٹرمپ سے توقعات وابستہ تھیں کہ یوکرائن سیزفائرکے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو سامنے آئے گا، تاہم دونوں عالمی راہنماؤں کی جانب سے کوئی مشترکہ بیان سامنے نہیں آسکا، ٹرمپ کی جانب سے فقط یہی کلمات ادا کیے گئے کہ دیئر اِز نو ڈیل انٹِل دیئر از اے ڈیل، یعنی جب تک معاہدہ نہیں ہوتا ، اس وقت تک کوئی سمجھوتہ نہیں۔اگرچہ الاسکا ملاقات سے کوئی معاہدہ تو طے نہیں پاسکا لیکن عالمی میڈیا پرمتعدد تجزیے، تبصرے اور ردعمل اِس تاثر کوتقویت پہنچا رہے ہیں کہ حالیہ ملاقات پوتن کی زیرقیادت روس کے عالمی، سفارتی، سیاسی، علاقائی اور جیوپولیٹیکل سطح پر اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنی ہے، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پوتن روس کی سفارتی تنہائی ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ یوکرائن جنگ بندی میں پیش رفت نہ ہونے سے یوکرائن اور یورپی ممالک میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے،پوتن نے یورپ کی جانب سے روس کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ روس کو علاقائی سلامتی و استحکام کیلئے اپنی شرائط پر کام کرنے کا حق حاصل ہے اور مغربی قوتیں روس کے راستے میں روڑے نہ اٹکائیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روسی صدر پوتن کاامریکی سرزمین پر بھرپوراندازمیں خیرمقدم نہ صرف عالمی منظرنامے پر روس کے بڑھتے ہوئے کردار کی عکاسی کرتا ہے بلکہ امریکہ کی زیرقیادت روائتی مغربی بلاک کی یکجہتی کو بھی متاثر کرنے کا باعث بنا ہے ۔دوسری طرف روس کا ریاستی میڈیا حالیہ ملاقات کوپرجوش انداز میں روس کی سفارتی فتح قرار دےرہاہے کہ اگرچہ ملاقات صرف استقبالیہ تک محدود رہی لیکن پوتن روس کو تنہائی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے، پوتن نے ثابت کردکھایا کہ یوکرائن میں امن ماسکو کی شرائط کے بغیر ممکن نہیں ۔میں نے اس حوالے سےمختلف میڈیا رپورٹنگ کا جائزہ لیا تو کچھ دلچسپ حقائق سامنے آئے، امریکہ نے پوتن کو سابقہ روسی علاقے میں ملاقات کیلئے مدعو کرکے نفسیاتی برتری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن جنگوں کو روکنے کی بات کرنے والے ٹرمپ کی جانب سے سمجھوتہ نہ ہونے کا اعتراف انکی بطور ڈیل میکر شہرت کیلئے دھچکا ثابت ہوا ہے جبکہ پوتن نے پہل کرتے ہوئے اجلاس کی ٹون سیٹ کرکے پی آر نکتہ نظر سے بڑافائدہ اُٹھا لیا،اسی طرح روس کا تمام سرکاری و ریاستی میڈیا ایک پیج پر نظر آیا لیکن امریکی اور مغربی میڈیا نےاپنی رپوٹنگ میں واضح طور پر فرسٹریشن کا اظہار کیا۔ الاسکا ملاقات کےتناظر میں روس کی عالمی منظرنامے پر بطور سپرپاور واپسی کی چہ مگوئیاں بھی زور وشور سے جاری ہیں، ٹائم، اکانومسٹ اور گارجین جیسے عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ پوتن کی زیرقیادت روس نے عالمی اسٹیج پر واپسی کر لی ہے، یوکرائن جنگ نے روس کو سفارتی و فوجی سطح پر اہم قوت بنا دیاہےاورماسکو اپنی تنہا ئی سے نکل کرعالمی طاقت کے طور پر دنیا کے مستقبل پر اثرانداز ہورہا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ سپرپاور وہ عالمی ریاست ہوتی ہے جو بیک وقت مختلف محاذوں بالخصوص معاشی میدان میں فتح حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، سرد جنگ کے زمانے میں سویت یونین ایٹمی ہتھیاروں اور جدید دفاعی صلاحیت کے بل بوتے پر ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، سیاسی و سفارتی محاذ پر عالمی برادری کا بڑا حصہ سویت بلاک کے زیرسایہ تھا،سویت یونین کی خلائی دوڑمیں بھرپور شمولیت سافٹ پاور کے اظہارکا اہم ذریعہ تھی، تاہم نوے کی دہائی میں سویت یونین کے انہدام کے بعدعالمی سپرپاور کا اعزاز صرف امریکہ کے پاس رہ گیا۔ آج سویت یونین کے جانشین روس کی عسکری قوت سے کسی کو انکار نہیں، آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہیں،روسی فوج ہائپر سونک میزائلز، ایئر ڈیفنس سسٹمزاور جدید جنگی سازو سامان سے لیس ہے، روس یوکرائن جنگ میںاپنی جارحانہ عسکری قوت کا بھرپور استعمال بھی کررہا ہےاور سفارتی سطح پر کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کرتا،لیکن میری نظر میں روس کی معاشی کمزوریاں اسے عالمی سپرپاور کا درجہ حاصل کرنےسے روکتی ہیں۔ روس کی معیشت کا دارومدار تیل، گیس اور قدرتی وسائل پر ہے ،تاہم یوکرائن حملے کے بعد مغربی پابندیوں نے روس کو ناقابل تلافی اقتصادی نقصان پہنچایا ہے،اسی کی دہائی میں سویت یونین کی اکانومی دنیا کی دوسری بڑی مضبوط معیشت تھی، آج دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں بھی روس کا شمار نہیں ،ماضی میں سویت امداد لینے والے ممالک بھی روس سے معاشی لحاظ سے آگے نکل چکے ہیں،آج عالمی منڈیوں میں روسی مصنوعات کا فقدان ہے، ماضی کے سویت بلاک کے اہم اتحادی ممالک اکیسویں صدی میں روس کے ساتھ کھڑے نظرنہیں آتے جبکہ روس اپنی سافٹ پاور کے اظہار سے قاصر نظر آتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پوتن روس کو ایک ایسے بڑے ملک کے طور پر متعارف کرانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں جو عالمی نظام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن معاشی عوامل کی بناء پر روس سپر پاورکی تعریف پر فی الحال پورا نہیں اُترتا، روس کو علاقائی کھلاڑی، ریجنل پاور یا پھر مغربی ایجنڈے کیلئے چیلنجرضرور کہا جاسکتا ہے لیکن اِسے مکمل سپرپاور کا اعزاز حاصل کرنے کیلئےاپنے آپ کو معیشت، ٹیکنالوجی، سافٹ پاور اور عالمی مالیاتی نظام میں بھی سویت یونین کا حقیقی جانشین ثابت کرنا ہوگا۔